’ہمارے پاس ہتھیار ہیں، خلیجی ممالک کے پاس دولت اور جلد یا بدیر انہیں ملنا ہی تھا‘
اگر آپ نے غور نہیں کیا تو بتادیں کہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے پاکستان کسی انتہائی بڑی پیش رفت کے لیے تیار ہورہا ہے۔ ہلچل مچ رہی ہے اور یہ ماضی سے بالکل مختلف ہے۔
ماضی میں پاکستان نے جب جب عظیم طاقت امریکا کی خارجہ پالیسیز میں اپنا کردار ادا کیا تو اسے امریکا کی جانب سے ہتھیاروں اور پیسے کی صورت میں بدلہ ملا ہے۔ امریکا نے پاکستان کی معیشت کو بڑھانے میں مدد کی اور اسے فوجی مدد دی۔ بدلے میں پاکستان اس کا اتحادی بن گیا جو 1960ء کی دہائی میں خاموش جبکہ 1980ء اور 2000ء کی دہائیوں میں زیادہ متحرک فوجی اتحادی تھا۔
لیکن آج صورت حال مختلف ہے۔ گمان ہوتا ہے کہ پاکستان عالمی سیاست میں ایک نئے کردار کے لیے تیار ہو رہا ہے لیکن اس بار شاید امریکا اس کہانی کا مرکزی کردار نہ ہو۔
ایسا لگتا ہے کہ چین کے ساتھ پاکستان کے فوجی تعلقات مزید مضبوط ہونے والے ہیں جبکہ پاکستان، مشرق وسطیٰ کے امیر خلیجی ممالک کے ساتھ ممکنہ طور پر ان کی سلامتی میں مدد کے عوض مالیاتی تعلقات بھی استوار کرے گا۔ یعنی پاکستان کو اپنے مشرق سے ہتھیار مل سکتے ہیں جبکہ مغرب سے اسے پیسے ملیں گے۔
دوسری جانب جب تک یہ نئی شراکت داری دونوں خطوں میں ان شعبوں میں اس کے مفادات کی راہ میں حائل نہیں ہوتی، تب تک شاید امریکا اس معاملے سے دور ہی رہے گا۔
یہ انتہائی نازک صورت حال ہوگی۔ لیکن ہمارے رہنماؤں نے ثابت کیا ہے کہ وہ اس طرح کی جغرافیائی سیاسی مشکل صورت حال کو سنبھالنا جانتے ہیں۔ یہ رہنما جدید معیشت کو سنبھالنے یا چلانے میں تو اچھے نہیں۔
ان کے پاس پیداواری صلاحیت بڑھانے، حکومتی آمدنی بڑھانے، اخراجات کو کنٹرول کرنے یا حکومت کی ملکیت والی کمپنیز کو ٹھیک کرنے یا ایک مستحکم مالیاتی نظام بنانے جیسے اہم طویل المدتی اقتصادی منصوبوں کے لیے درکار مہارتیں بھی نہیں ہیں۔ وہ مارکیٹ یا نجی کاروبار پر بھروسہ نہیں کرتے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ سرکاری کمپنیز کا انتظام بھی نہیں کر سکتے اور نہ ہی قیمتوں کو کامیابی کے ساتھ کنٹرول کر سکتے ہیں۔
لیکن اگر انہیں جغرافیائی سیاست کی بساط پر بٹھا دیا جائے تو وہ اچانک سے اس کھیل میں ماہر ہوجاتے ہیں۔ یہ وہ کھیل ہے جس میں انہوں نے دہائیوں کی محنت سے مہارت حاصل کی ہے۔ اور اس کھیل کو سمجھنے کے لیے آپ کو ایک اہم خیال جاننا ہوگا جس پر عالمی سیاست کے بہت سے حالات قائم ہیں۔ یہ خیال ہتھیاروں اور پیسے کے درمیان تعلق کے بارے میں ہے۔
جن کے پاس زیادہ دولت ہوتی ہے انہیں ہمیشہ تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور جو تحفظ فراہم کر سکتے ہیں انہیں اپنی صلاحیتوں کو تیار رکھنے کے لیے رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کوئی ملک بیک وقت پیسہ کمانے کا طریقہ اور جدید دور میں اپنے حفاظت کا بہترین ذرائع بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو وہ دنیا کی طاقتور قوت بن سکتا ہے۔
لیکن زیادہ تر ممالک کے پاس دولت اور دفاعی صلاحیتوں میں ایک چیز ہوتی ہے۔ وہ خاموش رہنے اور پریشانی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ انہیں تحفظ پر زیادہ خرچ نہ کرنا پڑیں۔
اب غور کریں۔ پاکستان کے پاس دفاعی صلاحیتیں ہیں لیکن تحفظ فراہم کرنے والے ادارے میں اپنی سرمایہ کاری کو برقرار رکھنے اور اس کی تعمیر کے لیے رقم کی کمی ہے۔ وہیں خلیجی سلطنتوں کے پاس دولت کے بے پناہ ذخیرے ہیں اور وہ کسی بیرونی قوت سے تحفظ چاہتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ایسے ذرائع نہیں جن کی مدد سے وہ دفاعی ادارے خود چلا سکیں۔ ہمارے پاس ہتھیار ہیں، ان کے پاس دولت اور جلد یا بدیر انہیں ملنا ہی تھا۔
حال ہی میں دوحہ کانفرنس میں پاکستان نے علاقائی سلامتی کے کسی بھی قسم کے انتظامات کا حصہ بننے میں اپنی دلچسپی کا اشارہ دیا تھا جس نے ایک عمل کا آغاز کیا۔ اب بھی بہت سی تفصیلات پر غور کرنا باقی ہے لیکن ہم جو نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں، وہ یہ ہے۔
خلیجی بادشاہ اپنی کمزوری اور اس حقیقت سے باخوبی آگاہ ہو چکے ہیں کہ ان کی حفاظت کے لیے امریکا پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ جب وہ یہ دیکھنے کے لیے اردگرد نظر دوڑاتے ہیں کہ اور کون ان کی حفاظت کر سکتا ہے تو انہیں کچھ ایسے ممالک ملتے ہیں۔ روس کے اپنے مسائل ہیں اور چین سفارتی بیانات سے ہٹ کر مشرق وسطیٰ میں الجھنا نہیں چاہتا۔ پاکستان اور مصر صرف وہ ممالک ہیں جن میں کافی بڑی افواج ہیں جو معمولی تحفظ بھی فراہم کر سکتے ہیں۔ بہ ظاہر مصر دلچسپی نہیں رکھتا۔
پاکستان میں انہیں ایسا ملک ملتا ہے جس کے پاس مسلح افواج بھی ہیں اور اس نے حال ہی میں اپنی صلاحیتوں کو ثابت کیا ہے جبکہ ان کی نظر سے پاکستان کے پاس ایران اور بھارت دونوں کو درستگی اور توازن کے ساتھ نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھنے والے میزائل بھی ہیں۔
اگر پاکستان کے پاس وسائل ہوں تو وہ جلد ہی ایک بڑی زمینی فوج کھڑی کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ یقیناً وہ پورے مشرقِ وسطیٰ کو سلامتی کے تحفظ کی چھتری فراہم نہیں کرسکتا۔ ایسی کوشش بھی حماقت ہوگی۔
لیکن یہ دیگر چھوٹے مگر اہم طریقوں سے مدد کر سکتا ہے جیسے فوجی افسران اور لڑاکا پائلٹس کو تربیت دینا، فوجی حکمت عملی بنانے میں مدد کرنا، فضائی دفاعی نظام اور قبل از وقت وارننگ سسٹم کے بارے میں مشورہ دینا، کمزوریوں کی نشاندہی کرنا، انٹیلی جنس اکٹھا کرنا، درست فوجی سازوسامان کا انتخاب کرنا، میزائل پروگرامز کے بارے میں مشاورت اور دیگر تجاویز فراہم کرسکتا ہے۔
اس کے علاوہ وہ پاکستان میں ایسا ملک بھی دیکھتے ہیں جس میں گہری اقتصادی خرابیاں ہیں۔ اس کے پاس مضبوط فوجی صلاحیتیں ہیں لیکن ان کی ادائیگی کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ ملک کے رہنماؤں کی عادات، اس کی تاریخ اور اس کی موجودہ سیاسی صورت حال، سب نے اس بات کا اشارہ کیا کہ پاکستان اپنی معیشت کو ٹھیک کرنے اور اپنی صلاحیتوں کو وسعت دینے کے لیے خود پر توجہ دینے کے بجائے خلیجی سلطنتوں کے ساتھ معاہدہ کرنے کی کوشش کرے گا۔
اسی لیے وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے فوری طور پر یہ ظاہر کیا کہ پاکستان اس قسم کا کوئی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ لیکن یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ اس قسم کا کوئی معاہدہ پاکستان کی معیشت کو جمود کی صورت حال سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کرتا ہے یا نہیں۔
اس بات کا امکان نہیں ہے کہ خلیجی بادشاہ عام پاکستانیوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے یا عوامی حمایت حاصل کرنے میں سرمایہ کاری کرنا چاہیں گے۔ زیادہ امکان یہی تھا کہ وہ ایک معاہدے پر راضی ہوں گے جس سے پاکستان کو اگلے چند سالوں یا شاید زیادہ طویل عرصے کے لیے درکار فوجی ساز و سامان خریدنے میں مدد ملے گی۔
یہ شاید اُس طرح کی معاشی تیزی کو تو واپس نہ لا پائے جو پاکستان نے ماضی کے سودوں کے نتیجے میں دیکھی لیکن ایسے معاہدے سنگین اقتصادی بحران سے بچنے کے لیے کافی ہونے چاہئیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔













لائیو ٹی وی