کراچی: سپر ہائی وے سے 3 خواجہ سراؤں کی گولیاں لگی لاشیں برآمد، وزیراعلیٰ کا نوٹس
کراچی میں میمن گوٹھ کی حدود میں سپر ہائی وے سے 3 خواجہ سرائوں کی لاشیں ملی ہیں، پولیس اور ریسکیو ادارے جائے واردات پر پہنچ گئے، وزیراعلیٰ سندھ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ سے رپورٹ طلب کرلی اور ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم دے دیا۔
ایس ایچ او میمن گوٹھ تھانے کے مطابق ناگوری سوسائٹی میں سپر ہائی وے سے 3 افراد کی لاشیں ملی ہیں، جنہیں گولیاں مار کر قتل کیا گیا ہے۔
پولیس کی بھاری نفری جائے واردات پر پہنچ گئی، پولیس کے مطابق لاشیں سپر ہائی وے پر ایک ریسٹورنٹ کے قریب زمین پر پڑی تھیں۔
پولیس کے مطابق مرنے والے خواجہ سرا ہیں جن کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا ہے، پولیس نے لاشوں کو ہسپتال منتقل کردیا۔
ایس ایس پی ملیر عبدالخالق پیرزادہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دو خواجہ سراؤں کو سینے جبکہ ایک کو سر پر ایک ایک گولی ماری گئی، جائے وقوعہ سے نائن ایم ایم کے دو خول ملے ہیں، کرائم سین پر کوئی کیمرا نہیں لگا ہوا، خواجہ سرائوں کی تاحال شناخت نہیں ہوسکی۔
دریں اثنا، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ کو قاتلوں کی فوری گرفتاری کے احکامات جاری کردیے۔
ترجمان رشید چنہ کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ خواجہ سرائوں کے قاتلوں کو ہر صورت گرفتار کر کے مجھے رپورٹ پیش کی جائے، خواجہ سرا معاشرے کا وہ مظلوم طبقہ ہے جسے ہم سب نے عزت اور احترام دینا ہے، ریاست کسی بھی مظلوم اور معصوم شہری کا قتل برداشت نہیں کرے گی، وزیراعلیٰ سندھ نے واقعہ کی تفصیلات طلب کرلیں۔
واضح رہے کہ کراچی میں خواجہ سراؤں پر تشدد کے واقعات معمول نہیں ہیں، ڈان اخبار نے ستمبر 2022 کو رپورٹ شائع کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ خیبرپختونخوا میں عدم تحفظ کا شکار خواجہ سراؤں کو کراچی میں محفوظ جنت مل گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ گزشتہ مردم شماری کے مطابق پاکستان میں 10 ہزار سے زائد خواجہ سرا رہائش پذیر ہیں۔
خواجہ سرا برادری کو آئے دن نشانہ بنا کر حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، 2022 کےستمبر تک صرف 5 ماہ میں خیبر پختونخوا میں سات خواجہ سرا قتل کیے جا چکے تھے اور ٹرانس جینڈر ورکرز کے مطابق گزشتہ سات برسوں میں وہاں 87 خواجہ سرا مارے گئے۔
رپورٹ کے مطابق ہراسانی ان کی زندگی کا معمول ہے اور اب وہ اپنی جان کے خوف میں بھی مبتلا ہیں، بیشتر خواجہ سرا بے گھر ہیں کیونکہ ان کے اپنے گھر والے انہیں چھوڑ چکے ہیں، صرف چند ہی خوش نصیب ہیں جیسے مانو، جو دوبارہ اپنے گھر لوٹ سکیں، باقیوں کے پاس سہارے کے لیے صرف ایک دوسرے کا ساتھ ہے۔
جینڈر انٹریکٹو الائنس (جی آئی اے) کی ڈائریکٹر بندیا رانا کے مطابق پاکستان میں خواجہ سراؤں اور ان کے حقوق کے بارے میں زیادہ آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے روزنامہ ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کن کیا کیا جائے جب وہی لوگ، جنہیں آگاہی پھیلانی چاہیے اور انسانی حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے، نفرت پھیلانے والے بن جائیں؟ انہوں نے ہمارے حقوق کو مذہب اور اسلام کا مسئلہ بنا دیا ہے‘۔











لائیو ٹی وی