ٹرمپ-نیتن یاہو ملاقات: کیا آج اسرائیل غزہ امن معاہدے کے لیے رضامند ہوجائے گا؟

شائع September 29, 2025

بہت سے لوگ گزشتہ ہفتے ہونے والی پیش رفت کے بعد سوچ رہے ہیں کہ کیا غزہ میں امن کی حقیقی معنوں میں امید ہے اور کیا آخر کار اسرائیلی قابض افواج کی تقریباً دو سال سے جاری فلسطینیوں کی نسل کشی کا خاتمہ ہونے والا ہے؟ ان سوالات کا جواب آج ہمیں مل سکتا ہے۔

اس سے قبل کئی بار کی طرح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے قریبی دوست، کاروباری شراکت دار اور خصوصی ایلچی اسٹیو ویٹکوف نے کہا ہے کہ غزہ میں امن کا امکان اب پہلے سے کہیں زیادہ روشن نظر آرہا ہے۔ لیکن ماضی کے مقابلے میں اب کی بار کیا مختلف ہے کیونکہ ماضی میں ان کی امیدوں کے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے۔

میرے خیال میں اس معاملے میں اہم موڑ کے طور پر دو واقعات کو دیکھا جاسکتا ہے۔ پہلا وہ ہے جب اسرائیل نے قطر کی سرزمین پر حماس کے مذاکرات کاروں کو نشانہ بناتے ہوئے میزائل حملہ کیا (حالانکہ وہ انہیں قتل کرنے میں ناکام رہا)۔

کچھ مبصرین نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے کہ امریکا جسے خطے میں اپنی سب سے بڑے فوجی اڈے کی میزبانی کرنے والے قطر کو مؤثر دفاعی نظام کے ذریعے میزائلز سے تحفظ فراہم کرنا چاہیے تھا، اسے اس حملے کے بارے میں پہلے سے بتائے جانے کے بجائے آخری وقت میں اسرائیل نے مطلع کیا۔

لوگوں کا کہنا ہے کہ چونکہ اسرائیل، حماس کے رہنماؤں کو قتل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا، اس لیے امریکا کو عوامی طور پر اس حملے سے خود کو الگ کرنا پڑا۔ اگرچہ واشنگٹن نے اپنے اتحادی پر حملے کی مذمت کی، تاہم اس کا ردعمل غیر واضح رہا کیونکہ اس نے اسرائیل کے اس ’حق‘ کو تسلیم کیا کہ وہ اپنے دشمنوں کو کہیں بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔

اس پر عرب ممالک کا ردعمل شدید برہمی کی صورت میں سامنے آیا۔ خلیجی ریاستوں نے امریکا کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کی حمایت کی ہے کیونکہ وہ امریکا کی دفاعی تحفظ کی چھتری پر انحصار کرتے ہیں۔ لیکن قطر پر حملے نے واضح طور پر ظاہر کیا کہ یہ ایران، یمن یا اندرونی مسائل جیسے خطرات سے تو انہیں تحفظ فراہم کرسکتا ہے لیکن اسرائیل سے انہیں نہیں بچائے گا۔

عرب ممالک کے ردعمل نے شاید ڈونلڈ ٹرمپ کو باور کروایا ہوگا کہ دولت مند عرب خلیجی ریاستوں میں ان کے ملک کی معاشی اور ٹرمپ کے خاندان کے کاروباری مفادات ایسے نہیں ہیں جن کا تحفظ وہ ان ممالک کو اہمیت دیے بغیر کرسکے۔ بدلے میں امریکا کو کچھ دینا پڑے گا اور امریکی پالیسی پر اسرائیلیوں کی گرفت کو ڈھیلا کرنا پڑے گا۔

اس سلسلے میں دوسرا اہم واقعہ اہم مغربی اتحادیوں جیسے برطانیہ، فرانس، کینیڈا اور آسٹریلیا، امریکا اور اسرائیل کے خلاف جاتے ہوئے آخرکار فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا تھا۔ اس کے علاوہ یورپی یونین نے اپنے بیان میں نسل پرست ریاست کے خلاف کسی طرح کی ممکنہ پابندیوں کا اعلان کیا۔ اس سے قبل ان تمام ممالک نے 7 اکتوبر 2023ء کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کی غیرمشروط حمایت کا اعلان کیا تھا۔

اس تبدیلی نے ٹرمپ کو اسرائیل کی ’بڑھتی ہوئی تنہائی‘ کے پیش نظر امن کی ضرورت پر بات کرنے پر مجبور کیا ہے۔

اس تحریک کا پہلا اشارہ اس وقت ملا کہ جب ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر مصر، اردن، پاکستان، قطر، سعودی عرب، ترکیہ اور متحدہ عرب امارات کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔ اس کے بعد سے اسٹیو ویٹکوف اور دیگر ذرائع نے جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے حوالے سے بات کی ہے (رہائی نہیں بلکہ تبادلہ کیونکہ اسرائیل کے پاس حماس سے زیادہ ہزاروں کی تعداد میں یرغمالی ہیں)۔

اس ملاقات کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں دو طرفہ ملاقاتیں بھی کیں جن میں وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر (جن دونوں کو ٹرمپ نے ’عظیم رہنما‘ کہا تھا) کے ساتھ ملاقات اہم تھی۔ یہ ایک دوستانہ اور مثبت ملاقات تھی جس موقع پر ’تھمس اپ‘ دکھایا گیا۔

اس ملاقات کی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں لیکن پھر بھی واشنگٹن میں حکومت سے منسلک کچھ صحافیوں نے معلومات کے چھوٹے چھوٹے حصے شیئر کرنا شروع کر دیے ہیں۔ ٹکڑوں میں ملنے والی ان معلومات کے مطابق یہ ممکن نظر آتا تھا کہ جنگ بندی شروع ہونے، یرغمالیوں کے تبادلے اور ’اسرائیلی افواج کے آہستہ آہستہ اور احتیاط‘ سے انخلا کے بعد غزہ میں سیکیورٹی کی نگرانی کے لیے پاکستان مسلم ممالک کے ایک گروپ کا حصہ بن سکتا ہے۔

دیگر تفصیلات میں عالمی تسلیم شدہ امدادی ایجنسیز کے تحت فوری طور پر غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی، امریکی حمایت یافتہ غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن کو غزہ میں غیر فعال کرنا شامل ہے جس نے خوراک کی تقسیم کے مقامات کو فلسطینیوں کی مقتل گاہوں میں تبدیل کیا۔ امریکا یہ بھی ضمانت دے سکتا ہے کہ مغربی کنارے کا الحاق نہیں ہوگا۔

تو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کی جانب سے کس پر الزام لگایا جارہا ہے کیونکہ یہ بالکل واضح ہے کہ نیتن یاہو کی نسل کش حکومت نے شرائط کو تبدیل کرکے، نئے مطالبات شامل کرکے یا محض معاہدوں کو توڑ کر ہر امن یا جنگ بندی کے معاہدے کو سبوتاژ کیا ہے۔ ابتدائی تمام کوششوں میں اسرائیل اور حماس دونوں نے امن کے منصوبوں پر کام کیا لیکن آخر میں اسرائیل ہمیشہ ان کوششوں کو پیچھے ہٹ گیا۔

اس موقع پر ٹرمپ نے اپنے ’ٹروتھ سوشل‘ پلیٹ فارم پر پوسٹ میں ’چار دن‘ کی شدید گفت و شنید کے بعد امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’خطے کے تمام ممالک اس میں شامل ہیں، حماس ان بات چیت سے باخبر ہے اور وزیر اعظم نیتن یاہو سمیت اسرائیل کو تمام سطحوں پر مطلع کر دیا گیا ہے۔ دہائیوں میں پہلی بار اس معاہدے کو کرنے کے لیے زیادہ خیرسگالی اور جوش ہے جتنا میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

’ہر کوئی موت اور تاریکی کے اس دور کے خاتمے کے لیے پُرجوش ہے۔ اس مذاکرات کا حصہ بننا میرے لیے ایک اعزاز ہے۔ ہمیں یرغمالیوں کو رہا کروانا ہوگا اور مستقل اور پائیدار امن حاصل کرنا ہوگا‘ (انہوں نے غیرضروری طور پر انگریزی میں ان الفاظ کو بڑے حروف میں لکھا)۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے تقریباً خالی ہال میں اپنی معمول کی ملٹی میڈیا پریزنٹیشن کے ساتھ اپنے اسرائیل کے جھوٹ کا پروپیگنڈا کرنے اور حامیوں کی جانب سے مہمانوں کی گیلری میں چند تالیوں کی گونج کے بعد، نیتن یاہو پیر کو بات چیت کے لیے وائٹ ہاؤس پہنچیں گے۔

یہ سطور پڑھنے کے چند گھنٹوں بعد، دنیا یہ جان جائے گی کہ آیا امریکی پالیسی پر نسل پرست ریاست کی گرفت اتنی ڈھیلی پڑی ہے کہ وہ کسی معاہدے کے لیے راہ ہموار کر سکے یا نیتن یاہو فلسطینیوں کی نسل کشی کو جاری رکھنے اور دوبارہ اپنے گریٹر اسرائیل کے منصوبے کی طرف بڑھنے کے لیے کسی نہ کسی طرح منظوری حاصل کرلیتے ہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عباس ناصر

عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abbasnasir59@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 5 دسمبر 2025
کارٹون : 4 دسمبر 2025