• KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.4°C
  • ISB: Cloudy 12.7°C
  • KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.4°C
  • ISB: Cloudy 12.7°C

گاڑیوں کے نئے حفاظتی معیارات نافذ، آٹو انڈسٹری کے شراکت داروں کا اظہار تشویش

شائع October 2, 2025
حکومتی اقدام انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ اور پی ایس کیو سی اے میں دائرہ اختیار کے تنازع کا باعث بھی بن گیا ہے— فائل فوٹو: ڈان
حکومتی اقدام انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ اور پی ایس کیو سی اے میں دائرہ اختیار کے تنازع کا باعث بھی بن گیا ہے— فائل فوٹو: ڈان

وزارتِ صنعت و پیداوار نے پہلی بار درآمد شدہ اور مقامی طور پر تیار کردہ گاڑیوں کے لیے معیار اور حفاظتی ضوابط نافذ کر دیے ہیں، جو آٹو انڈسٹری کے اسٹیک ہولڈرز کی تشویشات کے بعد سامنے آئے ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ (ای ڈی بی) نے سرکاری نوٹیفیکیشنز کے ذریعے یہ لازمی قرار دیا ہے کہ تمام نئی اور استعمال شدہ درآمدی گاڑیاں ڈبلو پی-29 کے درجنوں معیار پر پورا اتریں، ان میں روڈ سیفٹی، مسافروں کا تحفظ، کاربن کے اخراج کی حد اور ماحولیاتی تقاضے شامل ہیں، ڈبلیو پی-29 دراصل گاڑیوں کے قواعد و ضوابط کو ہم آہنگ کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے ورلڈ فورم کا فریم ورک ہے۔

یہ فیصلہ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کی سفارش پر وفاقی کابینہ نے منظور کیا۔

اب درآمدکنندگان کے لیے لازم ہوگا کہ وہ اقوام متحدہ کے اکنامک کمیشن برائے یورپ (یو این ای سی ای) کے وسیع پیمانے پر ضوابط پر عمل کریں، جن میں بریکنگ سسٹم، ایئر بیگز، سیفٹی بیلٹس، لائٹنگ، کاربن اخراج کی سطح، کریش پروٹیکشن (فرنٹل، سائیڈ اور پول امپیکٹس)، چائلڈ ریسٹرینٹس، ہیڈ ریسٹرینٹس، ٹائر سیفٹی اور برقی و ہائیڈروجن گاڑیوں کے مخصوص نظام شامل ہیں۔

اب صرف وہی کمپنیاں استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرسکیں گی جو کمپنیز ایکٹ 2017 کے تحت رجسٹرڈ ہوں، مناسب سرمایہ اور آفٹر سیلز سروس نیٹ ورک رکھتی ہوں، ہر درآمدی یونٹ کے لیے پری شپمنٹ انسپیکشن سرٹیفکیٹ لازمی ہوگا جو منظور شدہ ایجنسیوں جیسے جاپان کی جے اے اے آئی یا کوریا کی کے ٹی ایل سے جاری کیا جائے گا۔

ان سرٹیفیکیٹس میں اس بات کی تصدیق ہونا ضروری ہے کہ گاڑی سڑک پر چلنے کے قابل ہے، اس کے ایئر بیگز درست حالت میں ہیں، اوڈومیٹر سے چھیڑ چھاڑ نہیں ہوئی اور باڈی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، پاکستان آمد پر ان گاڑیوں کی پوسٹ شپمنٹ انسپیکشن بھی نامزد مراکز پر کی جائے گی۔

مقامی طور پر اسمبل اور تیار کی جانے والی گاڑیوں کو بھی انہی ڈبلیو پی-29 معیارات پر پورا اترنا ہوگا، جن میں بریکنگ، اسٹیئرنگ، گلیزنگ، ٹائرز، ڈھانچہ جاتی مضبوطی، شور اور کاربن اخراج کے ضوابط شامل ہیں، یہ شرائط ایندھن والے انجنوں کی حامل اور برقی دونوں قسم کی گاڑیوں پر یکساں لاگو ہوگی۔

گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کو 30 جون 2026 تک ان معیارات پر عمل درآمد کرنا ہوگا، بصورت دیگر ای ڈی بی کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ ان کے مینوفیکچرنگ سرٹیفیکیٹس اور درآمدی اجازت نامے منسوخ کردے۔

تاہم اسٹیک ہولڈرز نے اس نئے فریم ورک پر تحفظات کا اظہار کیا ہے، پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹوموٹیو پارٹس اینڈ ایکسیسریز مینوفیکچررز (پی اے اے پی اے ایم) کے سینئر رکن عامر اللہ والا نے ای ڈی بی کی استعداد پر سوال اٹھایا ہے کہ وہ ان معیارات کو نافذ اور ریگولیٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی بھی ہے یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’تمام مقامی اسمبلرز پہلے ہی بین الاقوامی معیار پر عمل کرتے ہیں جو جاپانی، کوریائی یا چینی اصولوں سے ہم آہنگ ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اگر حکومت ملک میں سرٹیفائیڈ ٹیسٹنگ لیبارٹریاں قائم کرنے میں ناکام رہی تو پرزہ جات کو بیرون ملک ٹیسٹ کرانے کی لاگت پیداوار کے اخراجات بڑھا دے گی اور قیمتی زرمبادلہ کا اخراج ہوگا‘۔

انہوں نے اس بات پر بھی شک کا اظہار کیا کہ اگر حکومت کوئی مقامی لیبارٹریاں قائم بھی کرے تو ان کی ساکھ کیا ہوگی۔

یہ اقدام دائرہ اختیار کے تنازع کا باعث بھی بنا ہے، ای ڈی بی کو آٹوموٹیو سیفٹی اور کوالٹی کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، جس سے پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (پی ایس کیو سی اے) کو ایک طرف کردیا گیا ہے، حالانکہ یہ وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کے تحت ملک کی واحد قانونی اتھارٹی ہے۔

پی ایس کیو سی اے پارلیمنٹ کے ایک منظور شدہ ایکٹ کے تحت قائم کی گئی تھی، یہ عالمی سطح پر پاکستان کی واحد معیاری تنظیم کے طور پر تسلیم شدہ ہے اور انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار اسٹینڈرڈائزیشن (آئی ایس او) میں ملک کی نمائندگی کرتی ہے۔

پاکستان اس رکنیت کے لیے سالانہ فیس بھی ادا کرتا ہے، عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کے ٹیکنیکل بیریئرز ٹو ٹریڈ (ٹی بی ٹی) معاہدے کے تحت معیارات طے کرنے کے لیے دہری یا متوازی اتھارٹیز قائم کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔

کارٹون

کارٹون : 14 دسمبر 2025
کارٹون : 13 دسمبر 2025