ملالہ با مقابلہ گریٹا: ’طاقت اپنے ساتھ ذمہ داری بھی لاتی ہے‘
جمعرات کو دن کے اختتام تک، اسرائیلی افواج نے اُن تمام کشتیوں کو روک لیا تھا جو گلوبل صمود فلوٹیلا کا حصہ تھیں۔ 450 کارکنان جن میں پاکستانی بھی شامل تھے، 40 سے زائد کشتیوں کے فلوٹیلا میں غزہ کے ساحل کی طرف جا رہے تھے تاکہ مقبوضہ پٹی کی 18 سال سے جاری بحری ناکہ بندی کو ختم کر سکیں۔
وہ غزہ میں بھوک سے نڈھال لوگ جن میں بہت سے بچے بھی شامل ہیں، کے لیے فارمولا دودھ، انسانی امداد اور ادویات لے جا رہے تھے۔ ایک ایسی دنیا میں جس نے اسرائیلی مظالم کے آگے بے بس فلسطینیوں کو مصائب اٹھاتے دیکھا ہے، فلوٹیلا نے امید ظاہر کی کہ وہ یہ پیغام لائے گا کہ عالمی برادری انہیں بھولی نہیں ہے۔
جن لوگوں کو اسرائیلی حکام نے حراست میں لیا تھا، ان میں سے ایک سویڈش موسمیاتی کارکن گریٹا تھیونبرگ بھی تھیں جو غزہ کے لوگوں کی آواز تھیں۔ فلوٹیلا میں شامل ہونے سے پہلے ایک انٹرویو میں گریٹا نے کہا کہ ان کا ’مشن ہونا ہی نہیں چاہیے تھا‘ کیونکہ یہ حکومتوں کا کام ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کی پیروی کریں اور انسانی امداد فراہم کریں۔
فلوٹیلا مشن واضح طور پر ہوا کیونکہ حکومتیں اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہیں اور دیکھتی رہی ہیں کہ اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں کیسے 65 ہزار سے زائد شہری مارے جا چکے ہیں جبکہ لاکھوں فلسطینی خراک کی قلت سے مر رہے ہیں۔ اس کا بیان ایک ایسی دنیا میں بین الاقوامی قانون کی قدر پر سوال اٹھاتا ہے جہاں اس طرح کے مصائب کی اجازت دی جارہی ہے۔
گریٹا تھیونبرگ کو ملک بدر کردیا جائے گا۔ یہ یقینی ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے لیے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں گی اور حکومتوں پر دباؤ ڈالیں گی کہ وہ مظلوم عوام کے لیے کچھ نہ کرنے کی ذمہ داری لیں۔
ان کا کام قابل ذکر ہے کیونکہ وہ یہ ظاہر کرتی ہیں کہ کس طرح ایک مشہور شخصیت ہونے سے دنیا میں بڑی تبدیلیاں لانے میں مدد مل سکتی ہے۔ ایک نوجوان سفید فام لڑکی جو ایسپرجر سنڈروم میں مبتلا تھی، گریٹا کا فلسطینیوں سے کوئی ذاتی، نسلی یا مذہبی تعلق نہیں ہے۔ تاہم ان کے دکھوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے ان کی کوششیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ انسانیت اب بھی موجود ہے۔
وہ نوجوانوں کی سچائی کو سمجھنے اور انصاف کے لیے کھڑے ہونے میں مدد کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم پیش کرتی ہیں، یہ دیکھنے میں ان کی مدد کرتی ہیں کہ فلسطینی کس حال سے گزر رہے ہیں۔
ایک اور نوجوان خاتون جو بڑے پیمانے پر مشہور شخصیت مانی جاتی ہیں، سب سے کم عمر نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی ہیں۔
گریٹا کے برعکس، وہ غزہ کے معاملے پر اتنی متحرک نہیں رہی ہیں۔ ملالہ نے گزشتہ سال سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے ساتھ ایک آف براڈوے شو پر کام کیا جو نہ صرف غزہ میں ہونے والے واقعات کو نسل کشی کہنے میں ناکام رہی ہیں بلکہ صیہونیت کے حامی بھی ہیں۔
جب امریکی کالج کے نوجوان طلبہ نے غزہ کی بے بس شہری آبادی پر اسرائیل کے حملوں کے خلاف احتجاج کیا تو ہلیری کلنٹن نے کہا تھا کہ وہ ان پڑھ ہیں اور انہیں ایک پروپیگنڈا دیا گیا ہے جس پر کام کریں۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو اس میں کوئی ابہام نہیں کہ اپنے سیاسی کریئر میں صہیونی ڈونرز سے لاکھوں ڈالر لینے والی ہلیری کلنٹن غزہ معاملے پر کہاں کھڑی ہیں۔.
ملالہ اور ہلیری کلنٹن کا آف براڈ وے پروجیکٹ ووٹ کے حق کے لیے لڑنے والی امریکی خواتین کے بارے میں تھا۔ ملالہ نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ انہیں ’ابھی تک کہانی کے امریکی پہلو کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا‘۔ لیکن وہ ممکنہ طور پر جانتی ہیں کہ جنوبی ایشیائی خواتین امریکی خواتین کی تحریک سے بہت پہلے ہی برطانوی راج سے لڑ رہی تھیں اور یورپی کنٹرول کے خلاف اپنی جانیں خطرے میں ڈال رہی تھیں جو اکثر خود کو دنیا میں خواتین کی سیاسی سرگرمی کی پہلی مثالوں میں سے ایک کے طور پر پیش کرتی ہیں۔
تو اسرائیلی حکومت غزہ کے ہسپتالوں پر بمباری کر رہی تھی، ہلیری کلنٹن نے مذموم کارروائی کی مذمت کرنے سے گریز کیا جبکہ ملالہ ایک پروڈیوسر کے طور پر شو میں سابق امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ تعاون کرتی رہیں۔ انہوں نے اس میں کوئی تبدیلی متعارف کروانے کی تجویز تک پیش نہیں کی جیسا کہ شو میں سیاہ فام اور بھوری رنگ و نسل والی خواتین کی کہانیاں شامل کرنا جنہوں نے امریکی حقوق نسواں کی تحریک سے بہت عرصہ پہلے نوآبادیات کے خلاف جدوجہد کی تھی۔ اپنے انٹرویو میں ملالہ نے کہا کہ اس شو نے انہیں ’ایکٹوزم کو مختلف نظریے سے‘ دیکھنے کا موقع فراہم کیا۔
ان کے یہ الفاظ ستم ظریفی ہیں۔ ایک عالمی مشہور شخصیت کے طور پر ملالہ غزہ کی اُس تباہی سے غافل نہیں رہ سکتیں جو ایک معصوم شہری آبادی پر نازل ہو رہی ہے۔ درحقیقت ایکٹوزم یا متحرک ہونا ہی جارحیت کا جواب ہوتا ہے لیکن ملالہ نے اس کا انتخاب نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک پروڈیوسر کی حیثیت سے کئی ماہ بعد، ملالہ نے اچانک قضیہ فلسطین دریافت کر لیا وہ بھی اس وقت کہ جب انہیں عوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
گریٹا اور ملالہ میں ہمیں دو طرح کے ماڈل ملتے ہیں جو ہمیں بتاتے ہیں کہ کس طرح طاقت کا استعمال کیا جا سکتا ہے پھر چاہے وہ چھوٹے پیمانے پر اثر انداز ہو یا بین الاقوامی مشہور شخصیت کے طور پر۔
طاقت کے ساتھ احتساب اور ذمہ داری آتی ہے۔ گریٹا تھیونبرگ ہمیں بتاتی ہیں کہ کچھ وجوہات ہمارے ذاتی اہداف یا آرام سے زیادہ بڑے ہوتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ملالہ جن کی اپنی راہ تلاش کرنے کے حوالے سے تازہ ترین کتاب اگلے ماہ ریلیز ہو گی، اس کے برعکس بیان کرتی ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔













لائیو ٹی وی