’حماس کی جانب سے امن منصوبہ قبول کرنے کے باوجود بے یقینی برقرار ہے‘

شائع October 6, 2025

اتنے زیادہ جھوٹ، دھوکے اور فریب ہیں کہ کسی شخص (جو بھی طاقت اور اختیار کے عہدے پر فائز ہے) پر الزام تک نہیں لگایا جاسکتا کہ اس کے لیے بھروسہ کرنا اتنا مشکل کیوں ہے جبکہ غزہ میں نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے جہاں اسرائیل طویل عرصے سے مکمل کھلی چھوٹ کے ساتھ اپنی کارروائیاں کررہا ہے۔

حماس نے شاید جنگ بندی کی کچھ شرائط کو قبول کرلیا ہو لیکن مزید پیش رفت کے حوالے سے بے یقینی ابھی برقرار ہے۔ دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نوبیل امن انعام کے اعلان سے چند روز قبل اسرائیل کو غزہ میں بمباری کا سلسلہ روکنے کا حکم دیا ہے۔

چلیے کچھ دن پہلے چلتے ہیں کہ جب ٹرمپ نے غزہ امن منصوبے کا اعلان کیا اور کہا کہ 8 مسلم ممالک کے رہنما اس سے متفق ہیں۔ جب انہوں نے تفصیلات کا اعلان کیا تو انہیں ممالک میں سے عدم اطمینان کی آوازیں اٹھنے لگیں جنہوں نے پہلے مسودے پر اتفاق کیا تھا۔ اس نے فریب کا پردہ چاک کیا۔

قطر اور پاکستان نے کم و بیش عوامی سطح پر کہا کہ یہ وہ مسودہ نہیں جس پر انہوں نے اتفاق کیا تھا۔ اور وہ اعلامیے سے ناخوش ہیں۔ تاہم یہ اطلاعات منظرعام پر آئیں کہ قطر نجی طور پر امریکا پر زور ڈالے گا کہ وہ اصل مسودے کے کچھ حصوں کو بحال کرے جبکہ وہ عوامی سطح پر منصوبے کی پذیرائی کریں گے۔ (تمام 8 ممالک نے ایک مشترکہ اعلامیے میں اس منصوبے کی توثیق کی تھی۔)

یہ بات بعد میں سامنے آئی کہ جس مسودے پر اتفاق کیا گیا تھا، اس میں ’ترمیم‘ کی گئی ہے یا یہ کہیں کہ اسرائیل کے سائیکو پیتھک وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے اس کا استحصال کیا ہے جنہوں نے ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو ویٹکوف اور داماد جیرڈ کشنر کے ساتھ ’مذاکرات‘ میں 6 گھنٹے گزارے۔ یہ دونوں ہی نیتن یاہو اور ان کی نسل پرست ریاست کے ذاتی دوست سمجھے جاتے ہیں اور انہوں نے اکثر اسرائیل کی خواہش کے مطابق اپنا مؤقف بھی تبدیل کیا ہے۔

یہ تبدیلیاں اس دوہرے مقصد سے کی گئیں تاکہ نیتن یاہو اپنے ملک میں فتح کا اعلان کرسکیں اور اپنے انتہائی دائیں بازو کے شراکت داروں جیسے بین گویر اور بیذالل اسموٹرک کو خوش کرسکیں جوکہ انہیں کی طرح بری خصوصیات رکھتے ہیں۔

ساتھ ہی اس منصوبے کو حماس کے لیے کافی حد تک ناقابلِ قبول بنانا تھا کیونکہ اس ترمیم میں اسرائیلی افواج کے انخلا کے وقت جیسے کلیدی نکتے کو واضح نہیں کیا گیا اور ڈرامائی طور پر حماس کی جانب سے اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے رہا ہونے والے فلسطینی یرغمالیوں کی تعداد کو کم کردیا گیا۔ اس منصوبے میں فلسطینیوں کو اپنی حکومت چلانے کے حق سے بھی محروم کیا گیا۔

عجیب بات یہ ہے کہ عظیم اور طاقتور مسلم دنیا جس میں سے ایک اپنی خودمختار فنڈنگ سے کھربوں ڈالرز کی امریکا میں سرمایہ کاری کرتا ہے، ایک نیٹو کا رکن ہے جو اپنی فوجی طاقت پر فخر کرتا ہے، ایک اتنی مضبوط عسکری فوج رکھتا ہے کہ وہ نسل پرست ریاست اسرائیل سے اپنے کھوئے ہوئے علاقے واپس لے چکا ہے جبکہ ایک مسلم امت کا واحد جوہری طاقت رکھنے والا ملک ہے، بے بس تھے اور کہا جارہا ہے کہ قطر، مصر اور ترکیہ نے حماس پر منصوبے کو قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حماس نے مشروط طور پر اسے قبول کیا ہے یا اسے قبول کرنے کے پیچھے شاید اس کی اپنی وجوہات بھی تھیں۔

جب ٹرمپ کے کلیدی خلیجی، نیٹو اور جنوبی ایشیا کے نئے نئے اتحادیوں میں عدم اطمینان کا اظہار کیا تو میڈیا میں یہ اطلاعات گردش کرنے لگیں کہ ٹرمپ، نیتن یاہو سے ناخوش ہیں اور جیسے مذکرات آگے بڑھے، انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم سے کہا کہ ’معاہدے کو قبول کرو یا پیچھے ہٹ جاؤ۔ اگر تم اس سے دستبردار ہوتے ہو تو ہم تم سے دوری اختیار کرلیں گے‘۔

اب امریکا جہاں اسرائیل کی حامی AIPAC، سیاست اور فیصلہ سازی پر کافی حد تک اثر انداز ہوتی ہے، اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ کوئی بھی صدر خاص طور پر وہ جس نے اسرائیل کے حامی عطیہ دہندگان سے کروڑوں کی فنڈنگ حاصل کی ہو، حقیقت میں اسرائیل سے دوری اختیار کرنے کی دھمکی دے سکتا ہے۔ اگر ہم اس بات پر یقین کرلیتے ہیں تو آپ یا میں یہ بھی مان لیں گے کہ میں، ایلون مسک سے زیادہ امیر ہوں۔

یہ فریب کی دنیا کی صرف ایک مثال ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں جہاں ہم جھوٹ سے گھرے ہوئے ہیں۔ ایک اور دھوکا کینیڈا، فرانس، آسٹریلیا اور برطانیہ کی جانب سے ’فلسطینی ریاست‘ کو تسلیم کرنا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ان کا کلیدی اتحادی کہتا ہے کہ کبھی بھی فلسطینی ریاست نہیں بنے گی تو ان کی جانب سے اسے تسلیم کرنا بےمعنی ہے۔

ان جمہوری مغربی طاقتوں نے بارہا غزہ میں نسل کشی ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ حال ہی میں انہوں نے اسے مکروہ فعل اور غیرانسانی بھی کہنا شروع کردیا ہے لیکن وہ اسرائیل پر اس کے اقدامات کی وجہ سے پابندیاں عائد نہیں کریں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنے کا مطلب حقیقی کارروائی کرنا ہے جس سے اسرائیل کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور وہ اس حد تک جانے کو تیار نہیں ہیں۔

یہ وہ مغربی اقوام ہیں جن کی حکومتیں محض الفاظ کی حد تک قضیہ فلسطین کی حمایت کرتی ہیں لیکن ان کے عوام لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر یہ پیغام دے رہے ہیں کہ بس بہت ہوچکا۔ وہ اسرائیل کے بائیکاٹ اور ناکہ بندی کا مطالبہ کررہے ہیں۔

برطانیہ سے اسپین تک، بیلجیئم سے اٹلی اور جرمنی تک جہاں پولیس مظاہروں کو روکنے کے لیے نازی دور کے طریقہ کار اپنا رہی ہے لیکن ان کے سخت اقدامات زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہو رہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہر طرف سے سیاستدان خواہ وہ دائیں بازو کے ہوں یا بائیں، سب نے فیصلہ کیا ہے کہ کسی نہ کسی طرح فلسطینیوں کو نازی جرمنی کے جرائم، خاص طور پر ہولوکاسٹ کی قیمت چکانی ہوگی۔ گویا ایک نسل کشی کو دوسری نسل کشی کا جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

اس حقیقت کے باوجود کہ مسلم دنیا کی بہت سی حکومتیں سڑکوں پر احتجاج کرنے والوں کے ساتھ بےرحمانہ سلوک اپناتی ہیں، ہزاروں مراکشی نوجوان سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور وہ پولیس سے ان کے اسرائیل نواز بادشاہ کی پالیسیز پر سوال اٹھانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ترکیہ میں بھی مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔

لیکن پھر دوسرا نقطہ نظر بھی ہے۔ انسانی ہمدردی کے جذبے سے تشکیل پانے والا فلوٹیلا جس میں دنیا بھر سے تقریباً 500 کارکنان اسرائیل کی غزہ کی ناکہ بندی کو توڑنے اور بچوں کی خوراک، دودھ، ڈائپرز اور خواتین کے لیے حفظان صحت اور دیگر سامان پہنچانے کی کوشش کر رہے تھے، کو نسل پرست ریاست کی افواج نے روک دیا۔

بہت سے کارکنان کو اسرائیلی قابض فوج نے مقبوضہ فلسطین کے پانیوں میں داخل ہونے سے پہلے اغوا کرلیا۔ ان کارکنان میں سے محض 30 فیصد کا تعلق مسلم ممالک سے ہے۔ باقی کا تعلق ان ممالک اور معاشروں اور ثقافتوں سے ہے جنہیں مسلم ریاستوں میں ہم میں سے بہت سے لوگ خود سے کم تر سمجھتے ہیں۔ میڈرڈ، روم، برسلز، میکسیکو سٹی، بوگوٹا میں اب بھی دسیوں ہزار افراد سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ ان ممالک کی فہرست لامتناہی ہے۔

مسلم ممالک میں ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے حکومتوں کی طرح ہیں، خاموش رہتے ہیں اور امریکا کو ناراض کرنے سے خوفزدہ ہیں جبکہ مغرب میں بہت سے لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور اپنی حکومتوں سے حقیقی کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ آئیے امید کرتے ہیں کہ ان کا انسانیت کا جذبہ جیت جائے گا کیونکہ ہماری امید کا دارومدار اسی پر ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عباس ناصر

عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abbasnasir59@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 5 دسمبر 2025
کارٹون : 4 دسمبر 2025