آرٹیکل 191 کو بھول جائیں تو آئینی بینچ ختم، سپریم کورٹ کا وجود ہی نہیں رہتا، جسٹس امین الدین

شائع October 8, 2025
عدالت نے درخواست گزاروں کی استدعا پر کارروائی کی براہ راست نشر کرنے کی اجازت دے دی — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
عدالت نے درخواست گزاروں کی استدعا پر کارروائی کی براہ راست نشر کرنے کی اجازت دے دی — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں زیر سماعت چھبیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں میں وکیل حامد خان نے فل کورٹ کی تشکیل کے معاملے پر دلائل مکمل کرلیے۔

جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی، حامد خان کے آرٹیکل 191 کو بھول جانے کے جملے پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 191 کو بھول جائیں تو آئینی بینچ ہی ختم، پھر ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ اگر ہم اسے بھول جائیں تو پھر آج سپریم کورٹ کا وجود ہی نہیں رہتا۔

دوران سماعت لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان عدالت میں پیش ہوئے اور معاملے پر فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم سینیٹ میں غیر معمولی طریقے سے لائی گئی تھی، ترمیم پارلیمنٹ میں رات کے وقت منظور کی گئی۔

حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 21 اکتوبر کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سمیت 17 ججز موجود تھے، 25 اکتوبر کو چیف جسٹس ریٹائر ہوگئے، ججز کی تعداد 16 رہ گئی، موجودہ آئینی بینچ کے 8 ججز بھی چھبیسویں آئینی ترمیم کے منظور ہونے کے وقت سپریم کورٹ میں موجود تھے۔

لاہور ہائیکورٹ بار کے وکیل نے کہا کہ باقی 8 ججز کو بھی آئینی بینچ کا حصہ ہونا چاہیے جو چھبیسویں آئینی ترمیم کے پاس ہونےکے وقت سپریم کورٹ کا حصہ تھے۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ہم آئین پر انحصار کرتےہیں، وکلا بھی آئین پر انحصار کرتے ہیں، جب تک آئین میں ترمیم نہیں ہوتی موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا، چھبیسویں آئینی ترمیم ٹھیک ہے یا غلط، فی الحال عدالت نے معطل نہیں کی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ فی الحال ہم مرکزی کیس کو نہیں سن رہے، فُل کورٹ کی درخواست پر دلائل دیں۔

حامد خان نے مؤقف اپنایا چھبیسویں آئینی ترمیم سے عدلیہ کے اختیارات پر پڑے اثرات سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں، چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد چیف جسٹس سے بینچز بنانے کا اختیار پہلی بار واپس لے لیا گیا، جوڈیشل کمیشن کی تشکیل پر بھی اثر پڑا۔

انہوں نے کہا کہ ترمیم سے ججز کی جوڈیشل کمیشن میں اکثریت ختم ہوگئی، جس کے باعث عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی۔

دوران سماعت جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ مسئلہ یہ ہے ابھی تک یہی فیصلہ نہیں ہوا کس بینچ نے کیس سننا ہے، ہم کس اختیار سے فل کورٹ تشکیل دیں؟

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ جوڈیشل آرڈر سے فل کورٹ کی تشکیل پر کوئی قدغن نہیں، چھبیسویں ترمیم میں کہاں لکھا ہے جوڈیشل آرڈر نہیں ہوسکتا؟ عام مقدمات میں ایسا کیا جا رہا ہے تو اس کیس میں کیوں نہیں؟

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ ہمیں آئین کے متن سے بتائیں ہم فل کورٹ کا آرڈر کیسے کریں؟ کیا ہم یہ آرڈر آرٹیکل 187 استعمال کر کے دیں؟

حامد خان نے کہا کہ جی بالکل! آرٹیکل 187 کے تحت عدالت اختیار استعمال کر سکتی ہے۔

جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ فرض کریں ہم آپ کی بات مانتے ہوئے تمام سپریم کورٹ ججز کو آئینی بینچ مان لیں تو آپ مطمئن ہوں گے؟

حامد خان نے کہا کہ آئینی بینچ کا تصور آپ نے چھبیسویں ترمیم سے دیا ہے۔

جسٹس جمال مندو خیل نے کہا ہم نے نہیں دیا، پارلیمان نے دیا ہے، ہم پر نہ ڈالیں۔

حامد خان نے کہا آپ تھوڑی دیر کے لیے آرٹیکل 191 اے کو بھول جائیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا بھول جائیں تو پھر آئینی بینچ ہی ختم، پھر ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ اگر ہم اس آرٹیکل بھول جائیں تو پھر آج سپریم کورٹ کا وجود ہی نہیں رہتا۔

جسٹس جمال مندو خیل نے پوچھا کہ اگر اس آئینی بینچ کا وجود ختم ہوجائے تو پھر ہم آرڈر کیسے کر سکتے ہیں؟

حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ دیکھنا ہے چھبیسویں آئینی ترمیم آئین کے مطابق ہے بھی یا نہیں، عدالت میں آدھا فل کورٹ موجود ہے، بقیہ 8 ججز کو بھی بینچ کا حصہ بنائیں، جہاں بھی آئین پر سوال اٹھا، ہمیشہ فل کورٹ بنی ہے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ آپ نہیں سمجھتے اب صورتحال مختلف ہے؟ ماضی میں پریکٹس اینڈپروسیجر ایکٹ موجود نہیں تھا، اس وقت چیف جسٹس اختیار استعمال کر کے فل کورٹ بناتے رہے، اب یہ اختیار آئین اور قانون کے مطابق کمیٹی کا ہی ہے۔

دوران سماعت وکیل حامد خان نے دلائل مکمل کرلیے، عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

26ویں ترمیم سے متعلق درخواستیں

درخواست گزاروں نے استدعا کی ہے کہ اگر یہ طے ہو کہ دونوں ایوانوں کے دو تہائی منتخب ارکان نے آزادانہ طور پر ووٹ نہیں دیا، تو عدالت 26ویں ترمیم کو طریقہ کار کی خلاف ورزی کی بنیاد پر کالعدم قرار دے۔

متبادل طور پر انہوں نے کہا کہ عدالت ترمیم کی ان دفعات کو ختم کرے جو عدلیہ کی آزادی کو نقصان پہنچاتی ہیں، کیوں کہ عدلیہ کی خودمختاری آئین کی بنیادی خصوصیت ہے۔

ان دفعا میں ہائی کورٹ کے ججوں کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لینے سے متعلق دفعات (آرٹیکل 175A(1) اور آرٹیکلز 175A(18)-(20))، چیف جسٹس کی تقرری سے متعلق ترمیم شدہ آرٹیکل 175A(3)، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں آئینی بینچز سے متعلق دفعات شامل ہیں۔

درخواست گزاروں نے استدعا کی کہ عدالت اعلان کرے کہ اصل آرٹیکل 175A(3) بدستور نافذ العمل ہے اور وفاقی حکومت کو ہدایت دے کہ وہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کو اسی کے مطابق چیف جسٹس مقرر کرے۔

انہوں نے آئینی بینچز کے قیام کو بھی غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی، اور مؤقف اختیار کیا کہ جن اراکینِ پارلیمان کے انتخابی تنازعات زیرِ سماعت تھے، ان کے ووٹ شامل کیے بغیر آئینی ترمیم کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں ہوئی۔

علاوہ ازیں، انہوں نے سپریم کورٹ (عمل و طریقہ کار) ایکٹ 2024 اور سپریم کورٹ (ججوں کی تعداد میں ترمیم) ایکٹ 2024 کو بھی غیر آئینی، کالعدم اور بے اثر قرار دینے کی استدعا کی، کیوں کہ ان قوانین کی بنیاد ’غیر آئینی‘ 26ویں ترمیم پر ہے اور یہ اسی کے تحت غیر آئینی مقاصد کے حصول کی کوشش ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 5 دسمبر 2025
کارٹون : 4 دسمبر 2025