عالمی طلب میں کمی اور ملکی مسائل، ٹیکسٹائل برآمدات مسلسل دوسرے ماہ کمی کا شکار
عالمی منڈیوں میں طلب میں کمی اور ملکی سطح پر بڑھتے معاشی چیلنجز کے باعث پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات ستمبر میں مسلسل دوسرے ماہ بھی کمی کا شکار رہیں۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ٹیکسٹائل اور ملبوسات کی برآمدات ستمبر میں 1.99 فیصد کم ہو گئیں، جو مسلسل دوسرے ماہ منفی شرحِ نمو کی نشاندہی کرتی ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ستمبر 2024 میں ٹیکسٹائل اور ملبوسات کی برآمدات ایک ارب 61 کروڑ ڈالر سے گھٹ کر ایک ارب 57 کروڑ ڈالر رہ گئیں، اس سے قبل اگست میں 7.34 فیصد کی زیادہ تیز گراوٹ دیکھی گئی تھی، جو اس شعبے کو درپیش جاری چیلنجز کو ظاہر کرتی ہے۔
ستمبر میں ہونے والی یہ کمی اس اتار چڑھاؤ کو مزید بڑھاتی ہے جو ٹیکسٹائل انڈسٹری میں دیکھا جا رہا ہے، حالانکہ رواں مالی سال کے پہلے مہینے (جولائی) میں 30 فیصد سے زائد اضافے کے ساتھ تیزی سے بحالی ہوئی تھی، مختلف مہینوں کی کارکردگی میں واضح فرق عالمی منڈیوں میں مانگ میں اتار چڑھاؤ اور ملکی سطح پر پائیدار مسائل کو ظاہر کرتا ہے۔
مالی سال 26 کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) کے دوران ٹیکسٹائل اور ملبوسات کی برآمدات میں 5.63 فیصد کا معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جو گزشتہ سال اسی مدت کے 4 ارب 52 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں بڑھ کر 4 ارب 77 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئیں، سہ ماہی اضافے کی وجہ دھاگے اور تیار شدہ مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ رہا، اگرچہ ستمبر میں مجموعی کارکردگی کمزور رہی۔
اعداد و شمار کے مطابق نٹ ویئر کی برآمدات کی مالیت میں 3.76 فیصد اضافہ ہوا، تاہم دیگر زمروں جیسے بیڈویئر، تولیے اور کاٹن کپڑے کی برآمدات میں کمی ریکارڈ کی گئی۔
بیڈویئر کی برآمدات کی مالیت میں 0.92 فیصد اور مقدار میں 1.61 فیصد کمی ہوئی، جب کہ تولیے کی برآمدات 5.02 فیصد کم ہوئیں، کاٹن کے کپڑے کی برآمدات میں نمایاں گراوٹ دیکھی گئی، جن کی مالیت میں 25.32 فیصد اور مقدار میں 20.56 فیصد کمی ہوئی۔
برآمدات کی ویلیو ایڈیڈ مصنوعات میں مسلسل کمی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ پاکستان میں کاروباری لاگت میں اضافہ صنعت کی مسابقت کو خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں متاثر کر رہا ہے۔
اہم شعبے
ستمبر میں دھاگے کی برآمدات میں 21.66 فیصد اضافہ ہوا، جو مجموعی طور پر کمزور برآمداتی کارکردگی میں ایک مثبت پہلو ہے، تاہم خام روئی کی برآمدات میں بھی 100 فیصد اضافہ دیکھا گیا، جو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کو ویلیو ایڈیڈ مصنوعات کے شعبوں میں سپلائی کے مسائل کا سامنا ہے۔
مصنوعی ریشوں اور ٹیکسٹائل مشینری کی برآمدات میں بھی نمایاں اضافہ ہوا، جو ان مصنوعات کی بڑھتی ہوئی مانگ کی عکاسی کرتا ہے، مصنوعی ریشے کی درآمدات میں 55.94 فیصد اور مصنوعی و آرٹیفیشل ریشمی دھاگے کی درآمدات میں 9.48 فیصد اضافہ ہوا۔
اگرچہ یہ اعداد کچھ مثبت پہلو ظاہر کرتے ہیں، لیکن چیلنجز برقرار ہیں، ٹیکسٹائل صنعت کے نمائندوں نے بارہا ساختی مسائل کی نشاندہی کی ہے، جن میں ریفنڈز اور ریبیٹس کے اجرا میں تاخیر شامل ہے، جو برآمد کنندگان پر دباؤ ڈال رہی ہے۔
نتیجتاً، پاکستان کی 25 ارب ڈالر مالیت کی انسٹالڈ ٹیکسٹائل کیپیسٹی کے باوجود اس شعبے کی کارکردگی جمود کا شکار ہے۔
تیل کی درآمدات میں کمی
مالی سال 26 کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان کے تیل کے درآمدی بل میں بھی 6.79 فیصد کمی دیکھی گئی، جو گزشتہ سال اسی مدت کے 4 ارب 4 کروڑ 90 لاکھ ڈالر سے کم ہو کر 3 ارب 77 کروڑ 50 لاکھ ڈالر رہا۔
یہ کمی بالخصوص پیٹرولیم مصنوعات کی کمزور طلب کو ظاہر کرتی ہے، اعداد و شمار کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی مالیت میں 3.08 فیصد اضافہ جب کہ مقدار میں 14.75 فیصد اضافہ ہوا، جو ظاہر کرتا ہے کہ درآمد کی جانے والی مصنوعات کی نوعیت میں تبدیلی آئی ہے۔
کچا تیل (خام آئل) کی درآمدات میں مالیت کے لحاظ سے 0.15 فیصد کمی مگر مقدار میں 9.92 فیصد اضافہ ہوا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقامی ریفائنریاں کم درآمد کے باوجود زیادہ خام تیل پراسیس کر رہی ہیں۔
دوسری جانب مائع قدرتی گیس (ایل این جی) اور مائع پیٹرولیم گیس (ایل پی جی) کی درآمدات میں بالترتیب 30.2 فیصد اور 2.04 فیصد کمی ہوئی، جو توانائی کی مصنوعات کی گھٹتی ہوئی طلب کو ظاہر کرتی ہے۔
معاشی اثرات
ٹیکسٹائل برآمدات اور تیل کی درآمدات دونوں میں کمی پاکستان کی معیشت کی مخلوط تصویر پیش کرتی ہے، جہاں ٹیکسٹائل شعبے کے مسائل عالمی سطح پر بدلتی ہوئی طلب اور ملکی چیلنجز کا نتیجہ ہیں، وہیں تیل کی درآمدات میں کمی ملکی اقتصادی سرگرمیوں کی سست رفتاری اور ریفائنریوں کے کم استعمال کو ظاہر کرتی ہے۔
پالیسی سازوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ٹیکسٹائل شعبے میں موجود ساختی مسائل، بلند لاگت، تاخیر سے ریفنڈز اور کم مسابقت کے مسائل کو حل کریں تاکہ آئندہ ترقی ممکن ہو سکے۔ اسی طرح تیل کی درآمدات میں کمی اس بات کا اشارہ ہے کہ اگر گھریلو کھپت میں اضافہ نہ ہوا تو مجموعی معیشت کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔













لائیو ٹی وی