• KHI: Partly Cloudy 20°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.1°C
  • ISB: Partly Cloudy 14.2°C
  • KHI: Partly Cloudy 20°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.1°C
  • ISB: Partly Cloudy 14.2°C

غزہ: جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی حملوں میں 3 فلسطینی شہید، صحت کا نظام تباہ

شائع October 16, 2025
حماس کی جانب سے بھیجی گئی لاشوں میں سے 2 مزید اسرائیلیوں کی شناخت ہوگئی ہے — فوٹو: انادولو
حماس کی جانب سے بھیجی گئی لاشوں میں سے 2 مزید اسرائیلیوں کی شناخت ہوگئی ہے — فوٹو: انادولو

جنگ بندی کے باوجود آج اسرائیلی حملوں میں کم از کم 3 فلسطینی شہید ہو گئے ہیں، جب کہ حماس کی جانب سے بھیجی گئی مزید 2 اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشوں کی شناخت ہوگئی۔

قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق طبی ذرائع نے بتایا کہ غیر مستحکم جنگ بندی کے دوران بھی اسرائیلی حملے جاری ہیں، جن میں آج مزید 3 فلسطینی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

غزہ کی ایمبولینس سروس کے ایک ذریعے نے ’الجزیرہ‘ کو بتایا کہ وسطی غزہ پٹی کے بریج مہاجر کیمپ کے مشرقی حصے میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ایک شخص شہید ہو گیا۔

یہ واقعہ اس کے بعد پیش آیا تھا، جب نصیر ہسپتال کے ذرائع نے بتایا تھا کہ آج اسرائیلی حملوں میں 2 فلسطینی مارے گئے ہیں، ایک ڈرون حملے میں، جب کہ دوسرا وہ شخص تھا جو چند روز قبل اسرائیلی افواج کے ہاتھوں زخمی ہوا تھا، اور آج زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔

دوسری جانب اسرائیلی حکومت کی ایجنسی کا کہنا ہے کہ غزہ اور مصر کے درمیان رفح کراسنگ کو لوگوں کی آمدورفت کے لیے کھولنے میں تاخیر برقرار رہے گی۔

اسرائیل کے وزیر دفاع نے فوج کو ہدایت دی ہے کہ اگر غزہ کی جنگ بندی ناکام ہو جائے تو حماس کو شکست دینے کے لیے ایک ’جامع منصوبہ‘ تیار کیا جائے۔

حماس نے 2 مزید اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں واپس کر دی ہیں، تاہم اس کا کہنا ہے کہ اب تک جتنی لاشوں تک رسائی ملی، وہ تمام اسرائیل کے حوالے کر دی ہیں، ملبے کے نیچے دبی مزید لاشوں کو نکالنے کے لیے خصوصی آلات اور امداد کی ضرورت ہوگی۔

اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیل کی غزہ پر جنگ میں کم از کم 67 ہزار 938 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 70 ہزار 169 زخمی ہو چکے ہیں۔

7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں میں اسرائیل میں ایک ہزار 139 افراد ہلاک ہوئے تھے، اور تقریباً 200 افراد کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔

غزہ صحت کے فعال نظام سے محروم

غزہ کی میڈیکل ریلیف سوسائٹی کا کہنا ہے کہ صحت کی خدمات تباہ ہو چکی ہیں۔

غزہ میں میڈیکل ریلیف سوسائٹی کے ڈائریکٹر نے دوبارہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ علاقے میں صحت کی تمام خدمات تباہ ہو چکی ہیں، اور کوئی فعال صحت کا نظام باقی نہیں رہا۔

محمد ابو عفاش نے ’الجزیرہ عربی‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ غزہ کے صحت کے نظام کو اسرائیلی افواج کے حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ غذائی قلت کے کئی مریض اب بھی فالو اپ اور علاج کے محتاج ہیں۔

3 ماہ کی خوراک موجود، پابندی برقرار

اقوامِ متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کی ایجنسی (یو این آر ڈبلیو اے) کا کہنا ہے کہ اس کے پاس غزہ کے باہر اتنی خوراک موجود ہے، جو 3 ماہ تک لوگوں کی ضروریات پوری کر سکتا ہے، اور اس کی ٹیمیں ترسیل کے لیے تیار ہیں۔

ایجنسی نے ’ایکس‘ پر لکھا کہ ’جنگ بندی کے باوجود، اسرائیلی حکام کی جانب سے یو این آر ڈبلیو اے کو غزہ میں امدادی سامان لے جانے پر پابندی اب 7 ماہ سے زائد عرصے سے برقرار ہے‘۔

یو این ایجنسی نے مزید کہا کہ ’ہمیں اجازت دی جائے کہ ہم غزہ میں ابھی مکمل پیمانے پر امداد پہنچا سکیں‘۔

مزید 2 یرغمالیوں کی باقیات کی شناخت ہوگئی، اسرائیلی فوج

اسرائیلی فوج نے بدھ کی رات غزہ سے واپس لائی گئی دو قیدیوں کی لاشوں کی شناخت ظاہر کر دی ہے۔

فوج کے مطابق اسرائیل کے نیشنل سینٹر فار فرانزک میڈیسن نے اسرائیلی پولیس اور فوج کے تعاون سے ان باقیات کی شناخت عنبر ہائیمان اور محمد الاطرش کے طور پر کی ہے۔

فوج کا کہنا ہے کہ 27 سالہ عنبر ہائیمان نوا میوزک فیسٹیول میں موجود تھی اور 7 اکتوبر کو اسرائیل پر ہونے والے حملے میں ہلاک ہو گئی تھی، اس کی لاش بعد میں غزہ لے جائی گئی۔

39 سالہ ایڈوانسڈ اسٹاف سارجنٹ محمد الاطرش اسرائیلی فوج کی شمالی بریگیڈ میں خدمات انجام دے رہے تھے، وہ بھی 7 اکتوبر کو لڑائی کے دوران مارے گئے اور ان کی لاش بھی غزہ لے جائی گئی تھی۔

فوج نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ’حماس پر لازم ہے کہ وہ معاہدے کے اپنے حصے پر عمل کرے اور تمام ضروری کوششیں کرے، تاکہ ہلاک شدہ مغویوں کی لاشیں ان کے اہلِ خانہ کو مناسب تدفین کے لیے واپس کی جا سکیں’۔

حماس کے معاملے پر اسرائیل کا ’جج‘ کا کردار

ایک اندرونی پہلو ہے جس سے اسرائیلی حکام بخوبی واقف ہیں، اسرائیلی قیدیوں کے اہلِ خانہ مایوس ہیں۔ وہ لاشوں کی واپسی میں تاخیر پر سخت اذیت میں ہیں، لیکن ثالثوں اور اسرائیلی حکام کو پہلے ہی معلوم تھا کہ اس عمل میں وقت لگے گا، ہفتے، بلکہ شاید مہینے لگ سکتے ہیں۔

جنوری میں، اس معاہدے پر دستخط ہونے سے بہت پہلے، اسرائیلی انٹیلی جنس اداروں کو علم تھا کہ کچھ لاشیں شاید کبھی نہ مل سکیں اور انہوں نے یہ بات کھلے عام کہی تھی۔

فی الحال یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ سامان کو اندر جانے کی اجازت دینا ضروری ہے، کیوں کہ ملبہ ہٹانا پڑے گا، 5 کروڑ 50 لاکھ ٹن ملبہ پورے غزہ میں بکھرا ہوا ہے، اور 10 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کے اس ملبے کے نیچے دبے ہونے کا خدشہ ہے، لہٰذا یہ ایک دیو ہیکل کام ہے۔

اسرائیل دباؤ ڈال رہا ہے، ان خدشات کو ہوا دے رہا ہے اور ان سیاسی اتحادیوں سے مخاطب ہے جو جنگ دوبارہ شروع کرنے کے بہانے تلاش کر رہے ہیں، مگر اس وقت بمباری دوبارہ شروع کرنے کا بٹن دبانا شاید اسرائیل کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہے۔

فی الحال، اسرائیل ایک بار پھر خوراک، دوائی، پانی، اور بحالی کے لیے ضروری سامان کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے، اس نے غزہ میں داخل ہونے والے ٹرکوں کی تعداد میں بڑی کمی کر دی ہے۔

اسرائیل حماس کے معاہدے پر عمل درآمد کے معاملے میں جج، جیوری اور ایگزیکیوشنر، تینوں کا کردار ادا کر رہا ہے، حالاں کہ اس معاہدے میں لاشوں کی واپسی کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں کیا گیا تھا۔

بہرحال، اس معاہدے پر ڈونلڈ ٹرمپ نے شرم الشیخ میں دستخط کیے تھے، متن میں یہ لکھا ہے کہ تمام اختلافات بات چیت کے ذریعے حل کیے جائیں گے، اس وقت اسرائیل میں 200 امریکی فوجی موجود ہیں جو اسی مقصد کے لیے ہیں، اور نگرانی کر رہے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 18 دسمبر 2025
کارٹون : 17 دسمبر 2025