ٹرمپ کی اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی توڑ دینے کی دھمکی
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر حماس نے غزہ میں گینگز اور مبینہ اسرائیلی تعاون کرنے والوں کو نشانہ بنانا جاری رکھا تو وہ اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والی جنگ بندی توڑ دیں گے۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ نے جمعرات کے روز ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ ’ اگر حماس نے غزہ میں لوگوں کو مارنا جاری رکھا — جو کہ معاہدے کا حصہ نہیں تھا — تو ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ ہم اندر جا کر انہیں مار ڈالیں، اس معاملے پر توجہ دینے کا شکریہ!’
یہ بیان بظاہر ٹرمپ کے مؤقف میں ایک بڑی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے، کیونکہ اسی ہفتے کے آغاز میں انہوں نے فلسطینی علاقے میں حماس کی جانب سے گینگز کے خلاف کریک ڈاؤن کی حمایت کی تھی۔
انہوں نے منگل کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ انہوں نے چند ایسے گینگز کو ختم کیا جو بہت برے تھے، بہت ہی برے گینگز، اور انہوں نے واقعی انہیں ختم کیا، اور کئی گینگ اراکین کو مار ڈالا، اور سچ کہوں تو، اس سے مجھے زیادہ فرق نہیں پڑا، یہ ٹھیک ہے۔’
رپورٹس کے مطابق غزہ میں حماس اور مسلح قبیلوں کے اراکین کے درمیان خونریز جھڑپیں ہوئیں، جن پر الزام ہے کہ وہ انسانی امداد لوٹ رہے تھے اور اسرائیل کے لیے کام کر رہے تھے۔
اتوار کے روز لڑائی کے بعد، غزہ کی وزارتِ داخلہ نے ان گینگز کے اراکین کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جو خونریزی میں ملوث نہیں تھے۔
جون میں، اسرائیلی حکام نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے غزہ کے گینگز کو اسلحہ فراہم کیا تھا، جن میں سے کچھ کے تعلقات داعش سے بھی ہیں، تاکہ حماس کو غیر مستحکم کیا جا سکے۔
اتوار کو مقامی فورسز کے مطابق اسرائیل سے منسلک ایک غزہ گینگ کے مسلح افراد نے ممتاز فلسطینی صحافی صالح الجفراوی کو قتل کر دیا۔
اسی ہفتے کے آغاز میں مبینہ اسرائیلی ایجنٹوں کو پھانسی دینے کے الزام کے بعد فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے حماس کی مذمت کی تھی اور ان مبینہ قتل کو ’ ایک گھناؤنا جرم’ قرار دیا تھا۔
محمود عباس کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ ’جو کچھ ہوا وہ ایک جرم ہے، انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے، اور قانون کی حکمرانی کے اصول پر ایک سنگین حملہ ہے۔‘
ٹرمپ کے جنگ بندی منصوبے کے تحت حماس کو غیر مسلح ہونا ہوگا اور غزہ کی حکومت میں اپنی تمام تر کردار سے دستبردار ہونا ہوگا، تاہم یہ واضح نہیں کہ حماس نے ان شرائط کو قبول کیا ہے یا نہیں۔
ہفتے کو نفاذ کے بعد یہ جنگ بندی زیادہ تر برقرار رہی، مگر اسرائیل نے بارہا اس معاہدے کی خلاف ورزی کی، روزانہ فلسطینیوں کو یہ کہہ کر شہید کیا کہ وہ اسرائیلی فوج کے زیرِ کنٹرول علاقوں کے قریب آئے تھے، حالانکہ وہ علاقے واضح طور پر نشان زد نہیں ہیں۔
اسرائیل نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ وہ ایک بار پھر غزہ کے لیے انسانی امداد کو محدود کرے گا، اس الزام پر کہ حماس نے اپنے قبضے میں موجود تمام لاشیں واپس نہیں کیں، اور اس نے غزہ اور مصر کے درمیان رفح کراسنگ کو کھولنے سے بھی انکار کر دیا ہے، جس سے علاقے میں آمد و رفت ممکن ہو سکتی تھی۔
ٹرمپ نے اس جنگ بندی کو ’ ایک نئے مشرقِ وسطیٰ کا آغاز’ قرار دیا تھا، لیکن ان کی تازہ دھمکی نے اس معاہدے کے پائیدار رہنے پر شکوک پیدا کر دیے ہیں۔












لائیو ٹی وی