توہینِ مذہب کے قوانین میں حفاظتی اقدامات شامل کیے جا رہے ہیں، وفاقی وزیر قانون
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ حکومت توہینِ مذہب سے متعلق مقدمات میں قانون کے غلط استعمال کو روکنے اور بروقت انصاف کو یقینی بنانے کے لیے نئے حفاظتی اقدامات متعارف کرا رہی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ حکومت توہینِ مذہب سے متعلق کیسز میں قانون کے غلط استعمال کو روکنے اور بروقت انصاف کو یقینی بنانے کے لیے عملی حفاظتی اقدامات متعارف کرا رہی ہے۔
انہوں نے ’بین المذاہب ہم آہنگی اور بنیادی حقوق – ایک آئینی ضرورت‘ کے موضوع پر سیمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے عدلیہ کے ارکان سے کہا کہ وہ آئینی حقوق کے تحفظ اور عدالتی رہنمائی کے ذریعے کمزور طبقات کے تحفظ میں قیادت کا کردار ادا کرتے رہیں۔
یہ سیمپوزیم پاکستان کی لا اینڈ جسٹس کمیشن (ایل جے سی پی) اور فیڈرل جسٹس اکیڈمی (ایف جے اے) کے مشترکہ اہتمام سے سپریم کورٹ آڈیٹوریم میں منعقد ہوا۔
وزیر قانون نے مذہبی رہنماؤں سے اپیل کی کہ وہ اپنے اثر و رسوخ کو ہمدردی، انسانیت اور رواداری کے فروغ کے لیے استعمال کریں اور کہا کہ ان کی آوازیں دلوں اور ذہنوں کو شکل دیتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اساتذہ اور میڈیا سے وابستہ افراد کو اپنے پلیٹ فارمز کے ذریعے کثرتیت اور معاشرتی ہم آہنگی کے پیغامات عام کرنے چاہئیں، جب کہ کاروباری رہنماؤں اور سول سوسائٹی سے بھی کہا کہ وہ ایسے کمیونٹی منصوبوں میں سرمایہ کاری کریں جو معاشرتی تقسیم کے باوجود مساوی اقتصادی مواقع فراہم کریں۔
چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) یحییٰ آفریدی نے اپنے ابتدائی خیرمقدمی خطاب میں کہا کہ اسلام کا پیغام ابتدا سے ہی امن، ہمدردی اور تمام انسانیت کے احترام پر مبنی ہے۔
سیمپوزیم کے موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ بین المذاہب ہم آہنگی پر مکالمے کا مقصد صرف سمجھ بوجھ اور تبدیلی نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ زیرِ بحث اصول عدالتی عمل میں بھی جھلکنے چاہئیں۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ بین المذاہب ہم آہنگی پر یہ مکالمہ پاکستان کو ایسی معاشرت کے قریب لے آئے گا جہاں حقوق صرف اعلان نہ ہوں بلکہ حاصل بھی کیے جائیں، انصاف تاخیر کا شکار نہ ہو بلکہ بروقت فراہم کیا جائے اور قانون امن و مساوات کی مشترکہ زبان کے طور پر کام کرے۔
بعد ازاں ڈاکٹر العیسیٰ، جو سعودی عدلیہ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں اور 2022 کے حج کے دوران عرفات میں خطبہ بھی دے چکے ہیں، نے کہا کہ پاکستان کو اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں بین الاقوامی نمونوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
انہوں نے سپریم کورٹ کو پاکستان کے آئین کے محافظ کے طور پر سراہا۔
سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے زور دیا کہ عدلیہ پر مساوات، کثرتیت اور قانون کی حکمرانی کے تحفظ کی مقدس آئینی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
اعلان منظور
دریں اثنا سیمپوزیم کے اختتام پر بین المذاہب ہم آہنگی پر ایک اعلان منظور کیا گیا جس میں عدالتی شعبے میں بین المذاہب حساسیت اور انسانی حقوق کی تعلیم کو شامل کرنے، اقلیتوں کے تحفظ اور بنیادی حقوق کے حصول کے لیے ادارہ جاتی نظام کو مضبوط بنانے، بین المذاہب ہم آہنگی، معاشرتی شمولیت اور باہمی احترام کو بنیادی حقوق کی بنیاد کے طور پر فروغ دینے، اور تمام شہریوں کے لیے مساوات و انصاف کے آئینی وعدے کو برقرار رکھنے پر زور دیا گیا۔











لائیو ٹی وی