رانو منتقلی کیس: کراچی چڑیا گھر میں 700 جانوروں پر ایک ویٹرینری ڈاکٹرز کی موجودگی کا انکشاف

شائع October 17, 2025
کراچی چڑیا گھر کی مادہ ریچھ ’رانو‘ اپنے انکلوژر میں موجود ہے— فوٹو: وائٹ اسٹار، فہیم صدیقی
کراچی چڑیا گھر کی مادہ ریچھ ’رانو‘ اپنے انکلوژر میں موجود ہے— فوٹو: وائٹ اسٹار، فہیم صدیقی

سندھ ہائیکورٹ نے کراچی چڑیاگھرکی مادہ ریچھ کی قدرتی ماحول منتقلی کے کیس میں چڑیا گھر کے جانوروں کی صحت، حالات زندگی اور عملے کی تفصیلات طلب کرلیں، دوران سماعت چڑیا گھر کے 700 جانوروں کے لیے صرف ایک ویٹرینری ڈاکٹر کی موجودگی کے انکشاف پر عدالت حیران رہ گئی۔

سندھ ہائیکورٹ میں کراچی چڑیاگھرکی مادہ ریچھ کی قدرتی ماحول منتقلی کے کیس کی سماعت ہوئی، عدالت نے چڑیا گھر کی موجودہ صورت حال پر سوال اٹھا دیے۔

دوران سماعت کے ایم سی کے پاس 700 جانوروں کے لیے صرف ایک ویٹرنری ڈاکٹر ہونے کا انکشاف ہوا، درخواست گزار کے وکیل جبران ناصر نے عدالت کو بتایا کہ کراچی چڑیا گھر میں 7 سو جانوروں پر صرف ایک ویٹرنری ہے۔

عدالت نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک ویٹرنری کیسے اتنے جانوروں کو سنبھال سکتاہے؟ عدالت نے انچارج کراچی چڑیا گھر سے استفسار کیا کہ آپ لوگوں کو خدا کا خوف تک نہیں، جب تک ٹی وی اخباروں یا سول سوسائٹی کچھ نہ کہے تو آپ کچھ نہیں کرتے۔

واضح رہے کہ عدالت نے منگل کو بیمار مادہ بھورے ریچھ ’رانو‘ کو علاج کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔

رانو ایک مادہ ہمالیائی بھورا ریچھ ہے، جس کی بگڑتی ہوئی صحت نے کراچی چڑیا گھر میں قید جانوروں کے ساتھ برتے جانے والے عدم توجہی اور بدسلوکی کے مسئلے کو اجاگر کر دیا ہے، سندھ ہائیکورٹ نے اس کی بگڑتی حالت کے حوالے سے دائر کردہ درخواست پر رانو کی منتقلی کا حکم دیا تھا۔

جمعرات کو کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے چڑیا گھر میں رکھے گئے تمام جانوروں سے متعلق مزید رپورٹ طلب کی۔

درخواست گزار جیوڈ ایلن پیریرا کے وکیل جبران ناصر نے بتایا کہ یہ رپورٹ جانوروں کی جسمانی اور ذہنی صحت، ان کے رہائشی حالات، چڑیا گھر کے عملے کی قابلیت اور تربیت، اور ان جانوروں کی منتقلی کی صورت میں متبادل انتظامات کی تفصیلات پر مشتمل ہوگی۔

جبران ناصر کے مطابق عدالت نے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) سے عملے کی تفصیلات اور ان کی اہلیت سے متعلق معلومات طلب کی ہیں، جبکہ سندھ حکومت کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی سے بھی رپورٹ مانگی گئی ہے جو رانو کی منتقلی کو یقینی بنانے کے لیے قائم کی گئی تھی، عدالت نے کمیٹی میں چند مزید اراکین شامل کرنے کی ہدایت بھی دی۔

سندھ حکومت کو مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ چڑیا گھر کا دورہ کرے اور جانوروں کے لیے فراہم کی جانے والی سہولیات کا جائزہ لے۔

جبران ناصر نے عدالت کے فیصلے کو ’ایک بڑی کامیابی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں، ماہرین اور میڈیا کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے جنہوں نے اس مسئلے کو اجاگر کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم معزز عدالت کے اس انسانی ہمدردی پر مبنی فیصلے کے شکر گزار ہیں، جس سے نہ صرف ان جانوروں کی زندگیاں بہتر ہوں گی بلکہ معاشرے میں جانوروں کے حقوق کے حوالے سے آگاہی بھی بڑھے گی‘۔

دوران سماعت کے ایم سی کے وکیل بیرسٹر اسد احمد نے عدالت کو بتایا کہ ’پیش رفت رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پہلے رانو کو اسلام آباد منتقل کیا جائے گا اور پھر وہاں سے گلگت لے جایا جائے گا‘، انہوں نے کہا کہ منتقلی کے لیے تربیتی مراحل بھی مکمل کیے جا رہے ہیں۔

جبران ناصر نے یہ بھی کہا کہ وائلڈ لائف کنزرویٹر جاوید مہر کی تجویز پر عمل کیا جا سکتا ہے، جنہوں نے تجویز دی تھی کہ رانو کو سڑک کے راستے یا ہوائی جہاز کے ذریعے اسلام آباد پہنچایا جا سکتا ہے۔

رانو کی منتقلی

جاوید مہر نے عدالت کو بتایا کہ ’ہم نے پہلے بھی جانوروں کی منتقلی کے انتظامات کیے ہیں اور اس کے لیے پہلے سے تربیت فراہم کی جاتی ہے‘۔

سماعت کے دوران جسٹس اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیے کہ رانو کا معاملہ تنہا نہیں بلکہ کئی جانور ایسے ہیں جو متاثر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ مسئلہ صرف ایک جانور کا نہیں، بلکہ بہت سے جانور اس سے متاثر ہیں‘۔

جسٹس کلہوڑو نے چڑیا گھروں میں جانوروں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ استفسار کیا کہ کیا 21 ویں صدی میں جانوروں کوبھی پنجروں میں قیدرکھاجاسکتاہے، چڑیا گھروں کو بند کر دیناچاہیے، جانوروں کو ان کے قدرتی مسکن میں ہونا چاہیے، یہاں چڑیا گھروں کو سنبھالنا ’انتہائی مشکل‘ لگتا ہے۔

وائلڈ لائف نے موقف اختیار کیا کہ ہم زبردستی رانو کو کنٹینر میں نہیں ڈال سکتے اس مرحلے کے لیے رانو کو مانوس کرنا ہوگا، عدالت نے کہا کہ آپ وقت لے لیں، لیکن آرام سے ان کو منقتل لازمی کریں، چڑیا گھر کی صورتحال انتہائی خراب ہے، یہ چڑیا گھر ختم ہونے چاہئیں، یہاں جانور چھوٹے چھوٹے پنجروں میں قید میں رکھے جاتے ہیں ۔

وکیل جبران ناصر نے عدالت کو بتایا کہ کراچی کے چڑیا گھر کے انتظامات کے ایم سی کے زیر انتظام ہیں، مگر وہاں سہولتوں کی شدید کمی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس تو اتنا عملہ بھی نہیں کہ یہ بتایا جا سکے کہ آیا لوگ جانوروں کو کھانا دے سکتے ہیں یا نہیں‘۔

انہوں نے مزید بتایا کہ کراچی چڑیا گھر میں صرف ایک ویٹرنری ڈاکٹر تعینات ہے، جس پر کے ایم سی کے وکیل نے کہا کہ نئی تقرریوں پر پابندی کے باعث مزید بھرتیاں نہیں کی گئیں۔

انچارج چڑیا گھر نے بتایا کہ 700 جانوروں کے لیے صرف ایک ویٹرینری ڈاکٹر موجود ہے، بھرتیوں پر پابندی کے باعث ویٹرینری ڈاکٹرز کی اسامیوں پر بھرتی نہیں کی جاسکی۔

جسٹس اقبال کلہوڑو نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک ویٹرنری کیسے اتنے جانوروں کو سنبھال سکتاہے؟ عدالت نے انچارج کراچی چڑیا گھر سے استفسار کیا کہ آپ لوگوں کو خدا کا خوف تک نہیں، جب تک ٹی وی اخباروں یا سول سوسائٹی کچھ نہ کہے تو آپ کچھ نہیں کرتے۔

جسٹس کلہوڑو نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’میں نے بچپن میں بھی چڑیا گھر دیکھے ہیں، وہ ہمیشہ خراب حالت میں رہے، کئی جانور زخمی ہوتے تھے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’آپ لوگ چڑیا گھر سے پیسہ کماتے ہیں مگر جانوروں پر خرچ نہیں کرتے‘۔

انہوں نے اس امر پر بھی افسوس ظاہر کیا کہ پاکستان میں ’نیشنل پارک‘ کا کوئی واضح تصور موجود نہیں جو چڑیا گھروں کا متبادل ہو سکتا۔

انہوں نے کہا کہ ’باہر کے ملکوں میں چڑیا گھر ایسے نہیں ہوتے، وہاں جانور پنجرے میں نہیں رکھے جاتے، ہم بھی چاہتے ہیں کہ یہ پنجرے ختم ہوں‘۔

جبران ناصر نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد کا سب سے پرانا چڑیا گھر بھی ماضی میں بند کیا جا چکا ہے۔

جسٹس کلہوڑو نے کہا کہ ’آپ یہ معاملہ لے کر آئیں کہ چڑیا گھر ہونے چاہییں یا نہیں، پھر ہم اس پر قانون کے مطابق فیصلہ کریں گے‘۔

عدالت نے سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی اور آئندہ سماعت پر پیش رفت رپورٹ طلب کی۔

رانو کو نظرانداز کرنے کا معاملہ

رانو کو 2017 میں کراچی چڑیا گھر لایا گیا تھا، اس کے ساتھ ایک ایشیائی کالا ریچھ بھی تھا جو 2020 میں مر گیا, اس کے بعد رانو کو تنہائی میں ایک خالی پنجرے میں رکھا گیا، رواں سال فروری میں ایک تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ رانو غیر معمولی رویہ اختیار کر چکی ہے اور ’شدید ذہنی دباؤ‘ کا شکار ہے۔

کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ اسے پنجاب کے کسی محفوظ مقام پر منتقل کیا جائے اور اس کی نسل کی تصدیق کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ بھی کرایا جائے۔

ماہرینِ حیوانات کا کہنا ہے کہ رانو دراصل ایک نایاب ہمالیائی بھورا ریچھ ہے، جبکہ چڑیا گھر کی انتظامیہ کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ یہ ایک شامی نسل کا ریچھ ہے۔

بعد ازاں یہ بھی انکشاف ہوا کہ کے ایم سی کمیٹی کی سفارشات پر عمل نہیں کر رہی تھی اور رانو وہیں قید رہی، رواں ماہ یہ امر بھی سامنے آیا کہ رانو کے سر پر چوٹ آئی تھی جو علاج نہ ہونے کے باعث پیپ اور کیڑوں سے بھر گئی ہے۔

کے ایم سی کے ترجمان دانیال سیال نے تصدیق کی کہ ریچھ کا زخم زیرِ علاج ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ چوٹ رانو نے خود اپنے سر کو پنجرے کی سلاخوں سے مار کر لگائی۔

بالآخر، جانوروں کے حقوق کی کارکن جیوڈ ایلن پیریرا کی درخواست پر سندھ ہائیکورٹ نے معاملہ سنا اور کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ریچھ کو اس حالت میں کیسے رکھا جا سکتا ہے؟‘۔

عدالت نے حکم دیا کہ ریچھ کو فوری طور پر اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے حوالے کیا جائے، درخواست گزار نے اس فیصلے کو ’رانو کی بڑی جیت‘ قرار دیا۔

کارٹون

کارٹون : 5 دسمبر 2025
کارٹون : 4 دسمبر 2025