پنجاب کی متاثرین سیلاب کیلئے گرانٹ سے پیپلز پارٹی کیساتھ انکم سپورٹ پروگرام پر تنازع ختم ہونے کا امکان
ایسے وقت میں جب حکمراں اتحاد کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے درمیان موجودہ ’سیز فائر‘ فی الحال برقرار دکھائی دیتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ پنجاب میں بحالی کے ایک منصوبے کے آغاز کے بعد پیپلز پارٹی کو کسی حد تک مطمئن کر دیا گیا ہے، جس کے تحت صوبے میں سیلاب متاثرین کو تقریباً 100 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق وزیرِاعظم آفس میں چند ملاقاتوں کے بعد دونوں جماعتوں کے ایک دوسرے پر زبانی حملے رک گئے، اور بعد ازاں ہفتہ وار تعطیل کے دوران پیپلز پارٹی کی مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں پارٹی نے فیصلہ کیا کہ وہ فی الحال ’انتظار کرو اور دیکھو‘ کی پالیسی اپنائے گی کہ آیا اس کے مطالبات پورے کیے جاتے ہیں یا نہیں۔
پیپلز پارٹی، جو پہلے پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز کی جانب سے بی آئی ایس پی کے ذریعے سیلاب متاثرین کو امداد دینے سے انکار پر تحفظات ظاہر کر چکی تھی، اب کسی حد تک اس یقین میں آگئی ہے کہ ان کا اعلان کردہ صوبائی پروگرام ضرورت مندوں کی مدد کے لیے کافی ہوگا۔
اگرچہ وزیرِاعظم شہباز شریف نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی تھی کہ وہ صوبائی حکومت کو مکمل طور پر پیپلز پارٹی کے مطالبے کے مطابق قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔
لیکن بعد ازاں وزیراعلیٰ مریم نواز نے ان سے ملاقات میں یقین دہانی کرائی کہ صوبے کا جامع بحالی پیکیج اس مقصد کے لیے کافی ثابت ہوگا، اس کے بعد وزیرِاعظم اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر معاملات منصوبے کے مطابق آگے بڑھے تو پنجاب میں اس مقصد کے لیے بی آئی ایس پی کو فعال کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں وزیرِاعظم شہباز شریف سے ملاقات کرنے والے وفد میں شریک سینئر رہنما سید نیئر حسین بخاری نے ’ڈان‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر صوبائی حکومت عوام کو جامع بحالی پیکیج فراہم کر رہی ہے تو ان کی جماعت کو کوئی اعتراض نہیں۔
تاہم انہوں نے یہ سوال اٹھایا کہ جب پنجاب حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور ڈونرز سے وفاقی حکومت کو ملنے والے قرضوں میں اپنا حصہ لیا ہے تو وہ ’بی آئی ایس پی‘ کے ذریعے فنڈز فراہم کرنے سے کیوں انکاری ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں شرکت کرنے والے وفاقی وزیرِمنصوبہ بندی احسن اقبال نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ وزیرِاعظم نے پنجاب میں سیلاب متاثرین کی مدد کے حوالے سے بلاول بھٹو زرداری سے وعدہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اگلے ہی روز وزیراعظم ہاؤس میں ایک اور اہم اجلاس ہوا جس میں پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ شریک تھے، اس اجلاس میں پنجاب کی وزیراعلیٰ نے وزیرِاعظم کو یقین دہانی کرائی کہ وہ صوبے میں سیلاب متاثرین کے لیے ایک بڑا پروگرام شروع کرنے جا رہی ہیں، اور اس کے بعد بی آئی ایس پی سے اضافی فنڈز لینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ’اس کے بعد وزیرِاعظم اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر پنجاب اپنی مالی گنجائش سے مناسب فنڈز فراہم کر رہا ہے تو وفاقی حکومت، جس کے پاس وسائل محدود ہیں، کو اسی مقصد کے لیے مزید خرچ نہیں کرنا چاہیے‘۔
پیپلز پارٹی کے ایک اور سینئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ اگر بی آئی ایس پی کو پنجاب میں سیلاب متاثرین کے لیے استعمال نہیں کیا جا رہا تو پارٹی کو کوئی اعتراض نہیں، بشرطیکہ وزیراعلیٰ مریم نواز کا اعلان کردہ بحالی پیکج بالخصوص کسانوں سمیت متاثرہ افراد کی مکمل تلافی کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے حالیہ احتجاج بھی ان وجوہات میں شامل ہیں جن کی بنا پر پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ محاذ آرائی ترک کر دی ہے، کیونکہ ملک ایک نازک صورتحال سے گزر رہا ہے اور ایسے میں تمام حکومتی اتحادیوں کو امن و استحکام کے لیے متحد رہنا چاہیے۔












لائیو ٹی وی