ڈیورنڈ لائن پر طالبان کا سخت مؤقف: ’افغان حکومت اب بھی اعتدال کے لیے تیار نہیں‘
اگرچہ جنگ بندی معاہدے سے پاک-افغان کشیدگی میں شاید کسی حد تک کمی آئی ہے اور یہ سرحدیں دوبارہ کھلنے کا باعث بھی بنا ہے لیکن صورت حال اب بھی انتہائی غیر مستحکم ہے۔
افغان طالبان رہنما مسلسل اصرار کر رہے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان واقع سرحد جوکہ ڈیورنڈ لائن کے نام سے بھی جانی جاتی ہے، ’خیالی‘ ہے جبکہ وہ اس کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہیں۔
پاکستان کے ساتھ دوحہ میں جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کے فوراً بعد ایک آن لائن پریس کانفرنس میں افغان طالبان کے وزیر دفاع نے زور دیا کہ معاہدے کے کسی حصے میں اس ’خیالی‘ سرحد پر بات نہیں ہوئی۔ ممکن ہے بات نہ ہوئی ہو لیکن افغان وزیردفاع کا لہجہ خود اشتعال انگیزی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
یہ سچ ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد سے کسی بھی افغان حکومت نے ڈیورنڈ لائن کو دونوں ممالک کے درمیان قانونی سرحد کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے، لیکن حالیہ طالبان انتظامیہ نے اس مسئلے کو زیادہ جارحانہ انداز میں اٹھایا ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران جب پاکستان کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوا تو سرحد کے حوالے سے ان کے مؤقف میں واضح شدت دیکھنے میں آئی ہے۔
افغانستان کی قدامت پسند اسلامی حکومت، جسے روس کے علاوہ اب تک کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے، کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انہوں نے افغان قوم پرستی کو اپنا مقصد بنا لیا ہے تاکہ افغانستان سے سرحد پار عسکریت پسندی میں سرگرم گروہوں کی سرپرستی پر طالبان حکومت پر ہونے والی عالمی تنقید سے توجہ ہٹائی جا سکے۔ دوحہ اجلاس کے بعد ملا یعقوب کا بیان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کابل اب بھی اعتدال کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اور ستم ظریفی یہ ہے کہ دنیا میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ افغان طالبان، پاکستان کی پراکسی تھے۔ یہ تاثر اس وقت مزید مضبوط ہوا جب یہ حقیقت سامنے آئی کہ افغان طالبان کی موجودہ قیادت نے امریکی قبضے کے خلاف اپنی مزاحمتی مہم کا بڑا حصہ پاکستان سے چلایا تھا۔
تاہم جو بات نظرانداز کر دی گئی وہ یہ تھی کہ یہ وقتی مفاد پر مبنی اتحاد تھا۔ اس دوران افغان طالبان اور پاکستان کے تعلقات زیادہ ہموار نہیں تھے۔ لیکن پھر بھی اس قدر دشمنی کی توقع کسی کو نہیں تھی۔
حتیٰ کہ ملا عمر کی پہلی افغان طالبان حکومت جو کہ پاکستان کی حمایت پر کافی حد تک انحصار کرتی تھی، اس نے بھی ڈیورنڈ لائن کو باقاعدہ سرحد تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا مگر اس حکومت نے اسے مسئلہ نہیں بنایا تھا۔ لیکن اُس وقت طالبان کے کچھ رہنما بھی اس معاملے پر کافی آواز اٹھا رہے تھے اور اس تقسیم کو ایک مصنوعی لکیر قرار دیتے تھے جسے ان کی نظر میں ختم کرنے کی ضرورت تھی۔
1893ء میں برطانیہ اور افغان بادشاہ عبدالرحمٰن خان کی جانب سے قائم کردہ 2 ہزار 300 کلومیٹر طویل ڈیورنڈ لائن جو خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو افغانستان سے الگ کرتی ہے، برطانوی راج میں ہندوستان اور افغانستان کے درمیان سرحد کو ظاہر کرتی تھی۔
جب پاکستان آزاد ہوا تو یہ معاہدہ اسے وراثت میں ملا جو ملک کی مغربی سرحد کی وضاحت کرتا تھا۔ اسے بین الاقوامی قانون کے تحت ایک جائز سرحد کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ لیکن افغانستان نے اس تقسیم کو قبول کرنے سے انکار کیا۔ ڈیورنڈ لائن تنازع ہی وجہ تھی جس کی بنیاد پر افغانستان نے پاکستان کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے میں تاخیر کا مظاہرہ کیا۔
اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ کابل کی مختلف حکومتوں کی جانب سے عملی طور پر ڈیورنڈ لائن کو ایک سرحد کے طور پر تسلیم کیا جاتا رہا ہے لیکن اس کے باوجود یہ اکثر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی، سرحدی جھڑپوں اور ناکہ بندیوں کا سبب بنتی رہی ہے۔ تاہم گزشتہ ہفتے جو شدید جھڑپیں ہوئی ہیں جن میں اطلاعات کے مطابق پاکستانی فضائیہ کے جیٹ طیاروں نے کابل اور دیگر افغان شہروں پر بمباری بھی کی، ایسی صورت حال کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
پاکستان کا مؤقف ہے کہ اس کی کارروائیاں سرحد پار سے مسلسل مسلح اشتعال انگیزی کے جواب میں کی گئیں اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہیں۔ 4 سال سے زیادہ عرصہ قبل کابل میں طالبان کی حکومت کی واپسی کے بعد خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
رواں سال، گزشتہ ایک دہائی میں سب سے خونریز ثابت ہوا ہے جس میں سیکڑوں پاکستانی سیکیورٹی اہلکار شہید ہو چکے ہیں۔ رپورٹ کیے جانے والے فضائی حملے طالبان انتظامیہ کے لیے پیغام تھے کہ انہیں عسکریت پسند گروپوں کی سرپرستی کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
اگرچہ طالبان انتظامیہ نے جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کر دی ہے لیکن اب تک اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ وہ اب بھی کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تیار ہوگی یا نہیں جسے وہ اپنے جہادی بھائیوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔
کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات میں شامل رہنے والے چند پاکستانی حکام کے مطابق ایک اور اہم مسئلہ طالبان حکومت کی صلاحیت کا ہے کہ وہ ان مضبوط اور مسلح گروہوں کے خلاف کارروائی کر بھی سکتی ہے یا نہیں جن کے مقامی افغان طالبان کمانڈروں سے گہرے روابط ہیں۔
پھر یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو داعش میں شامل ہو سکتے ہیں جو افغانستان کے بعض علاقوں میں اب بھی فعال ہے۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ سرحدی علاقوں میں دیگر سرحد پار عسکریت پسند گروہوں کے دوبارہ منظم ہونے کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں۔
یہ صورت حال نہ صرف خطے کے دیگر ممالک کی سیکیورٹی کے لیے خطرناک ہے بلکہ خود افغانستان کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ ہے۔ ایسے میں پاکستان کے ساتھ موجودہ سرحد کی قانونی حیثیت پر طالبان کا اشتعال انگیز مؤقف انتہائی خطرناک معلوم ہوتا ہے۔
افغان طالبان کے لیے ڈیورنڈ لائن کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھانے کی ایک معقول وضاحت یہ ہو سکتی ہے کہ وہ پشتون علاقوں میں قوم پرستی کے جذبے کے تحت عوامی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ ملک اب بھی سنگین سماجی و اقتصادی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ افغانستان پر خواتین کو کام کرنے سے روکنے اور ان کے تعلیمی حقوق کو محدود کرنے کی رجعت پسندانہ پالیسی کی وجہ سے بین الاقوامی پابندیاں اب بھی برقرار ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ حکومت پاکستان کی طرف سے اٹھائے گئے کچھ تعزیری اقدامات بشمول لاکھوں افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنے نے طالبان حکومت کے ساتھ اسلام آباد کے اختلافات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ یہ یقیناً پاکستان کا انتہائی غیردانشمندانہ اقدام تھا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اس طرح کی پالیسیوں نے عوام میں غصے کو بھڑکایا ہے۔
درحقیقت یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اپنی سیکیورٹی فورسز پر سرحد پار سے ہونے والے دہشت گرد حملوں پر پاکستان کا صبر کا پیمانہ کیوں لبریز ہورہا ہے۔ تاہم اسلام آباد کو احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
یہ اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا کرنے والے ملک کے مفاد میں نہیں کہ وہ حالات کو مزید خراب کرے۔ جنگ بندی پر راضی ہونا اور مذاکرات کی میز پر بیٹھنا یقیناً ایک دانشمندانہ فیصلہ تھا۔ اس تنازع نے سرحد کے دونوں طرف لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے۔
اگرچہ دوحہ اجلاس کے نتیجے میں جنگ بندی ہوئی ہے لیکن امید کی جاتی ہے کہ جلد استنبول میں ہونے والا بات چیت کا اگلا دور، خطے میں امن کے راستے میں موجود کئی دیگر رکاوٹیں دور کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ خطے کے ممالک کا دو ہمسایوں کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے میں مداخلت کرنا ایک انتہائی مثبت قدم ہے۔ یہ دونوں ممالک کے مفاد میں ہے کہ وہ اپنے تمام اختلافات مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔












لائیو ٹی وی