پنجاب میں کچے کے ڈاکوؤں کے حملوں کے پیش نظر ایم-5 موٹروے پر حفاظتی قافلے تعینات

شائع October 23, 2025
— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اور حملوں کے خطرے کے باعث پنجاب پولیس نے ایم-5 موٹروے پر رات کے اوقات میں حفاظتی قافلے تعینات کر دیے ہیں تاکہ مسافروں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق رحیم یار خان کی پولیس نے اس ہفتے سے سکھر-ملتان موٹروے (ایم-5) پر رات کے وقت حفاظتی قافلے چلانا شروع کر دیے ہیں، تاکہ موٹروے پر سفر کرنے والے افراد کو کچے کے ڈاکوؤں کے حملوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔

ستمبر میں سیلاب کے باعث جلّال پور پیر والا کے قریب موٹروے کے ایک حصے کی تباہی کے بعد ایم-5 پر ٹریفک میں شدید کمی واقع ہوئی تھی اور کئی ڈرائیورز کو قومی شاہراہ (این-5) استعمال کرنے پر مجبور ہونا پڑا، تاہم جب نقصان شدہ راستے کی ایک لین بحال کی گئی اور موٹروے متبادل راستے کے ذریعے کھول دیا گیا، تو ایم-5 پر ٹریفک پھر بڑھ گئی۔

اب رحیم یار خان پولیس شام 7 بجے سے صبح 6 بجے تک تمام گاڑیوں کو جمال دین والی اور بھونگ کے درمیان آزام پور سروس ایریا پر روک کر ہر آدھے گھنٹے بعد دو ذمے دار پولیس پِک اپ گاڑیوں کی قیادت میں قافلہ روانہ کر رہی ہے، سکھر سے آنے والی شمال کی طرف جانے والی ٹریفک کو گڈو انٹرچینج سے آزام پور تک اسکورٹ فراہم کی جاتی ہے۔

یہ اقدام پولیس نے اس وقت اختیار کیا جب تنویر اندھر گروپ نے 5 ستمبر کو صادق آباد تحصیل میں نواز آباد کے قریب ایم-5 پر متعدد گاڑیوں سے 10 افراد کو اغوا کر لیا تھا، یہ پنجاب میں سکھر-ملتان موٹروے پر کچے کے گروہوں کی براہِ راست رسائی کی پہلی رپورٹ شدہ مثال تھی۔

موٹر وے پر رحیم یار خان سے روہڑی جانے والے موٹر سوار محمد شاہد نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ یہ سفر کا سب سے محفوظ راستہ لگتا تھا، اب غیر یقینی کیفیت ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ آزام پور پر تقریباً آدھا گھنٹہ انتظار کرنے کے بعد قافلے کے ساتھ گڈو انٹرچینج تک چلے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سندھ کی حدود شروع ہونے کے بعد گڈو سے سکھر تک کوئی قافلہ نہیں ہوتا، حالانکہ سندھ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے گشت کرتے ہیں۔

سکھر سے لاہور کے درمیان اکثر سفر کرنے والے ایک شخص نے کہا کہ ایم-5 کے کچھ حصوں، خاص طور پر اقبال آباد اور روہڑی کے انٹرچینجز کے درمیان، پر انہیں غیر محفوظ محسوس ہوا۔

انہوں نے قطب دین شاہ سروس ایریا کے قریب جہاں پور جنگل کو سب سے خوفناک حصہ قرار دیا، جہاں انہیں شدید خوف محسوس ہوا۔

رحیم یار خان پولیس کے ترجمان ذیشان رندھاوا نے ڈان کو بتایا کہ فورس جان و مال کی حفاظت کے لیے فکر مند ہے اور خطرناک علاقوں میں ٹریفک چلانے کے لیے جدید ہتھیاروں سے لیس تربیت یافتہ عملے اور بلٹ پروف گاڑیاں تعینات کی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکوؤں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، ایک بار علاقے کو محفوظ قرار دے دیا جائے تو ٹریفک معمول کے مطابق چلے گا، قافلوں میں نہیں۔

گھوٹکی کے ایس ایس پی انور کھیتران نے بتایا کہ سندھ پولیس نے گزشتہ سال جنوری اور فروری میں عارضی طور پر قافلے استعمال کیے، لیکن اب عارضی چوکیوں اور بھرپور گشت پر انحصار کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایم-5 پر ہمیشہ آٹھ سندھ پولیس گاڑیاں اور آٹھ رینجرز کی گاڑیاں موجود ہیں، اس کے علاوہ نیشنل ہائی ویز اور موٹروے پولیس (این ایچ ایم پی) کی یونٹس بھی تعینات ہیں۔

انور کھیتران نے کہا کہ این ایچ ایم پی نے پنجاب آئی جی کو قافلوں کی سفارش کی تھی، لیکن سندھ نے خطرے کا سامنا وسیع گشت کے ذریعے کیا۔

انہوں نے زور دیا کہ حکومت کو ایک طویل مدتی حکمت عملی اپنانی ہوگی تاکہ مستقل حل تلاش کیا جا سکے اور کچے کے جرائم پیشہ افراد کا خاتمہ کیا جا سکے، اس مقصد کے لیے دریائی علاقوں کو ترقی دے کر اور جرائم پیشہ افراد کے لیے محفوظ ٹھکانے روک کر کچے کے علاقے پکے کیے جائیں گے۔

ڈاکوؤں کا سرینڈر

علاوہ ازیں سندھ حکومت کی ’سرینڈر پالیسی 2025‘ کے تحت بدھ کے روز شِکار پور ایس ایس پی دفتر میں 70 سے زائد مطلوب کچے کے ڈاکوؤں نے ہتھیار ڈال دیے اور 200 سے زائد ہتھیار جمع کروائے۔

سندھ کے وزیر داخلہ ضیاالحق حسن لنجار، آئی جی پی غلام نبی میمن، سینئر رینجرز افسران اور مقامی پی پی پی رہنما تقریب میں موجود تھے۔

ضیاالحق حسن لنجار نے پولیس، رینجرز اور تعاون کرنے والے قبائلی بزرگوں کی تعریف کی اور شہید افسران کو خراج عقیدت پیش کیا۔

وزیر داخلہ سندھ نے سرینڈر کرنے والے ڈاکوؤں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے قابلِ ستائش قدم اٹھایا ہے، اپنی سزا مکمل کریں اور قانون کے پابند شہری بن کر واپس آئیں۔

انہوں نے باقی گروہوں پر زور دیا کہ وہ پالیسی قبول کریں کیونکہ یہ کچے کے علاقوں میں مقیم خاندانوں کے لیے حمایت فراہم کرے گی، بینظیر انکم سپورٹ سے لے کر سڑکیں، اسکول، صحت کی سہولیات، وٹرنری خدمات اور بے گھر کسانوں کے لیے زمین تک۔

انہوں نے خبردار کیا کہ سرینڈر کریں، ورنہ آپ کو اپنے ٹھکانے میں ہی ختم کر دیا جائے گا۔

آئی جی پی غلام نبی میمن نے کہا کہ سندھ میں قانون و انتظام بتدریج بہتر ہو رہا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ 2012 میں شروع ہونے والے ہنی ٹریپ آپریشن کے بعد سے مسلسل کریک ڈاؤن کے سبب تاوان کے لیے اغوا کا عشرہ طویل مسئلہ تقریباً ختم ہو گیا ہے۔

غلام نبی میمن نے کہا کہ پولیس کارروائیوں کے دوران 171 ڈاکو ہلاک اور 421 زخمی گرفتار ہوئے۔

رینجرز کے سیکٹر کمانڈر نے کچے کے علاقوں میں مشترکہ کارروائیوں کو اجاگر کیا اور مسلسل تعاون کی یقین دہانی کروائی۔

ڈی آئی جی لاڑکانہ ناصر آفتاب نے کہا کہ کچے کا لفظ اغوا اور بھتہ خوری کا مترادف بن چکا تھا، لیکن پولیس، رینجرز اور خفیہ اداروں کے مشترکہ اقدامات نے توازن بدل دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 282 مشتبہ افراد نے سرینڈر کی درخواست دی اور بدھ کی تقریب میں 70 سے زائد کی منظوری دی گئی اور 209 ہتھیار جمع کروائے گئے۔

جمع کروائے گئے ہتھیاروں میں 62 جی-3 رائفلز، 97 ایس ایم جیز، 48 ڈبل بیریل شاٹ گنز، 2 آر پی جی-7 لانچرز، ایک اینٹی ٹینک آر آر-75 اور ایک 12.7 ملی میٹر اینٹی ایئر کرافٹ گن شامل تھے، حکام کے مطابق سرینڈر کرنے والے افراد پر مجموعی ہیڈ منی 6 کروڑ روپے سے زائد ہے۔

پولیس کے مطابق کئی آپریشن کیے گئے جن میں گڑھی تیغو (جہاں پانچ ماہ میں 107 یرغمالیوں کو بازیاب کرایا گیا)، کوٹ شاہو، جگن، کالہوڑو (میڈیجی) اور باگڑجی (سکھر) شامل ہیں۔

آپریشن بچل بھایو میں بدنام زمانہ ڈاکو شیرو مہار مارا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2025
کارٹون : 3 دسمبر 2025