اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارہ ضم کیا تو امریکا کی حمایت کھو دے گا، ڈونلڈ ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے کو ضم کرتا ہے تو اسے امریکا کی حمایت کھونی پڑے گی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق امریکی صدر نے یہ بیان ٹائم میگزین کو 15 اکتوبر کو دیے گئے ایک ٹیلی فونک انٹرویو میں دیا گیا، جو آج شائع ہوا۔
ٹائم میگزین کے مطابق ٹرمپ کے اس بیان کے ساتھ ہی نائب صدر جے ڈی وینس اور وزیرِ خارجہ مارکو روبیو دونوں نے اسرائیل کو کسی بھی قسم کے انضمام سے خبردار کیا۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ میں نے عرب ممالک سے وعدہ کیا ہے، اب ہم ایسا نہیں کر سکتے، ہمیں عرب ممالک کی زبردست حمایت حاصل ہے، اگر ایسا ہوا تو اسرائیل، امریکا کی حمایت کھو دے گا۔‘
’سعودی عرب رواں سال کے اختتام تک معاہدہ ابراہیمی میں شامل ہو جائے گا‘
ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ انہیں یقین ہے کہ سعودی عرب رواں سال کے اختتام تک ’معاہدہ ابراہیمی‘ میں شامل ہو جائے گا، جو اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کا عمل ہے۔
ایک سوال کے جواب میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’ہاں، میں سمجھتا ہوں کہ وہ شامل ہوگا، بالکل ہوگا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ دیکھیں، ان کے پاس دو مسائل تھے، غزہ اور ایران کا مسئلہ، اب یہ دونوں مسائل نہیں رہے۔’
یہ بیان انہوں نے اسرائیل کے غزہ پر فوجی حملوں اور ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے دیا، جن پر رواں سال کے اوائل میں امریکی فضائی حملے کیے گئے تھے۔
ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ فلسطینی رہنما مروان برغوثی کی رہائی سے متعلق فیصلہ کریں گے، جو ممکنہ امن کوششوں کا حصہ ہو سکتا ہے۔
مصری سرکاری میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ فتح تحریک سے تعلق رکھنے والے مروان برغوثی ان فلسطینی قیدیوں میں شامل ہیں جنہیں حماس غزہ معاہدے کے تحت رہا کرانا چاہتی ہے۔
ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں اپنے اعلیٰ حکام کو اسرائیل بھیجا ہے تاکہ رواں ماہ کے اوائل میں طے پانے والی نازک غزہ جنگ بندی کو مستحکم کیا جا سکے۔
تاہم، جیسے ہی نائب صدر جے ڈی وینس نے تین روزہ دورہ مکمل کیا اور وزیرِ خارجہ روبیو اسرائیل پہنچے، اسرائیلی قانون سازوں نے دو بلز منظور کیے جو مغربی کنارے کے انضمام کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
ایک بل کے تحت مغربی کنارے پر اسرائیلی قانون کا اطلاق کیا جائے گا، جو اس علاقے کے باقاعدہ انضمام کے مترادف ہے، وہی علاقہ جسے فلسطینی اپنے مستقبل کے آزاد ریاست کا حصہ سمجھتے ہیں۔
اسرائیلی پارلیمان نے بدھ کو اس بل کی ابتدائی منظوری دے دی۔
جے ڈی وینس نے اس اقدام کو ’انتہائی احمقانہ سیاسی تماشہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مجھے ذاتی طور پر اس سے ناگواری محسوس ہوتی ہے۔
واشنگٹن سے روانگی سے قبل روبیو نے بھی اسرائیل کو خبردار کیا کہ مغربی کنارے کے انضمام کی کوششیں اور آبادکاروں کا تشدد غزہ میں جنگ بندی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
وینس نے واضح طور پر کہا کہ ’صدر ٹرمپ اسرائیل کے زیرِ قبضہ مغربی کنارے کے انضمام کی مخالفت کرتے ہیں اور یہ کبھی نہیں ہوگا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’مغربی کنارہ اسرائیل کے ساتھ ضم نہیں کیا جائے گا، صدر ٹرمپ کی پالیسی یہی ہے کہ مغربی کنارے کو ضم نہیں کیا جائے گا، اور یہ ہمیشہ ہماری پالیسی رہے گی۔
یہ ردعمل اسرائیلی پارلیمان (کنیسٹ) کی جانب سے ایک روز قبل ایک مسودۂ قانون کی ابتدائی منظوری کے بعد سامنے آیا ہے، جس کے ذریعے اسرائیلی قوانین کو مقبوضہ مغربی کنارے پر لاگو کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
بدھ کو اسرائیلی قانون سازوں نے مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے سے متعلق دو بلز کی منظوری دی، یہ پیش رفت ایسے وقت ہوئی جب امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں غزہ میں جاری 2 سالہ اسرائیلی جنگ کے خاتمے کے لیے ایک امن معاہدہ طے کروایا تھا۔
آج اس پیشرفت پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان نے اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر اپنی نام نہاد ’خود مختاری‘ کو توسیع دینے کی کوشش کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی۔












لائیو ٹی وی