مصر میں جلا وطن کیے گئے فلسطینیوں کی آبادکاری کیلئے پاکستان بھی آپشن میں شامل
مصر میں جلاوطن کیے گئے فلسطینی قیدیوں کو آباد کرنے کے لیے جن ممالک پر غور کیا جا رہا ہے ان میں قطر، ترکیہ اور ملائیشیا کے علاوہ پاکستان بھی شامل ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکی ثالثی سے ہونے والے جنگ بندی معاہدے کے بعد، جو 10 اکتوبر سے نافذ العمل ہے، حماس نے تقریباً 2 ہزار فلسطینی قیدیوں کے بدلے تمام 20 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیا تھا۔
ان میں سے زیادہ تر قیدی غزہ اور مغربی کنارے واپس چلے گئے، تاہم 154 فلسطینی سابق قیدیوں کو جلاوطن کر کے بسوں کے ذریعے مصر بھیج دیا گیا، جہاں حکام نے انہیں ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں رکھا ہوا ہے جہاں سے وہ اجازت کے بغیر باہر نہیں نکل سکتے۔
یاد رہے کہ مصر کے اسرائیل کے ساتھ باضابطہ سفارتی تعلقات ہیں اور اس نے قیدیوں کے تبادلے میں کلیدی ثالثی کردار ادا کیا جب کہ جنگ بندی کے پچھلے معاہدوں کے دوران بھی ہزاروں فلسطینی قیدیوں کو اسی طرح کے تبادلوں کے ذریعے رہا کیا گیا تھا۔
مصر نے سب سے پہلے ان قیدیوں میں سے 150 کو جنوری میں قبول کیا تھا اور 8 ماہ سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود ان میں سے زیادہ تر اب بھی اسی ہوٹل میں مقید ہیں، ان کے مستقبل کے بارے میں کوئی واضح فیصلہ نہیں کیا گیا۔
قاہرہ میں موجود یہ تمام افراد اسرائیلی فوجی عدالتوں سے قتل اور مزاحمتی تنظیموں کی رکنیت رکھنے کے الزامات میں عمر قید کی سزا پاچکے ہیں، تاہم، اقوام متحدہ کے ماہرین متعدد مواقع پر ان فیصلوں کو غیر منصفانہ قرار دے چکے ہیں، جنہیں مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کے خلاف دہائیوں سے جاری غیر عادلانہ مقدمات کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اسرائیلی عدالتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ عدالتیں دراصل قبضے کے نظام کا حصہ ہیں اور فلسطینیوں کو منصفانہ ٹرائل کے بنیادی حقوق فراہم نہیں کرتیں۔
دوسری جانب، قاہرہ میں موجود ان فلسطینی سابق قیدیوں کو اب نئے مسائل کا سامنا ہے، ان کے پاس نقل و حرکت کی آزادی نہیں، کام کے اجازت نامے نہیں، اور یہ بھی واضح نہیں کہ ان کا اگلا قدم کیا ہوگا جب کہ مصری حکومت نے اب تک ان کی قانونی حیثیت کے بارے میں کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا۔
45 سالہ مراد ابو الرب پر 2006 میں الفتح سے وابستہ تنظیم ’الاقصیٰ شہدا بریگیڈ‘ کے ایک آپریشن کے دوران 4 اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کرنے کا الزام ہے، انہوں نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ کوئی عرب ملک ہمیں قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم 20 سال سے اپنے خاندانوں سے جدا تھے اور اب وہ غیر یقینی صورتحال میں زندگی گزار رہے ہیں، یہاں آکر بھی کچھ نہیں بدلا، میں اب بھی اپنی ماں یا بہن بھائیوں سے نہیں مل سکتا، جب مجھے گرفتار کیا گیا، میری چھوٹی بہن 15 سال کی تھی اور جب میں نے اسے ویڈیو کال پر دیکھا تو میں نے اسے پہچانا ہی نہیں۔
اپنی 19 سالہ قید کے دوران، ابو الرب کو 8 مختلف اسرائیلی جیلوں میں منتقل کیا گیا، اور وہ کسی ایک جیل میں چند ماہ سے زیادہ نہیں رہے۔
ایک اور قیدی جو قتل کے الزام میں 22 سال اسرائیلی جیلوں میں قید رہے، جس پر پاپولر فرنٹ فار دی لبرریشن آف فلسطین سے وابستگی کا الزام تھا، نے اپنی رہائی سے قبل کے لمحات کو سب سے اذیت ناک قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ درجنوں قیدیوں کو رسیوں سے باندھ دیا گیا۔ ہمیں آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر گھٹنوں کے بل بٹھایا گیا، پھر زمین پر منہ کے بل لٹا دیا گیا اور ہاتھ باندھ دیے گئے۔
50 سالہ محمود العرضہ، جنہیں قتل اور اسلامی جہاد تنظیم سے وابستگی کے الزام میں قید کیا گیا تھا، نے کہا کہ قید کے آخری دو سال ان کی زندگی کے سب سے بدترین تھے، روزانہ کی بنیاد پر مارپیٹ اور تضحیک کی جاتی تھی۔
فلسطینی اتھارٹی کے مطابق، تقریباً 11 ہزار فلسطینی اب بھی اسرائیلی قید میں ہیں جن پر تنازع سے متعلق الزامات عائد ہیں جب کہ ان کی ممکنہ آبادکاری کے حوالے سے پاکستان جیسے ممالک میں بات چیت جاری ہے، حسن عبد ربو نے بتایا کہ یہ تمام افراد اب بھی مصر میں مقیم ہیں اور ان کے قیام کے اخراجات قطر برداشت کر رہا ہے۔












لائیو ٹی وی