اسلام آباد ہائیکورٹ کا خاتون اور 3 بچوں کے اغوا کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی کے قیام کا حکم
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک خاتون اور اس کے 3 کم سن بچوں کے مبینہ اغوا کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا ہے، یہ واقعہ حال ہی میں جوائنٹ انکوائری کمیٹی (جے آئی سی) کی رپورٹ میں سامنے آنے والے کروڑوں روپے کے نیول فارمز لینڈ اسکینڈل سے منسلک بتایا جا رہا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے یہ حکم محمد وقاص اور دیگر کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کے دوران دیا۔
درخواست میں الزام لگایا گیا کہ پولیس اہلکاروں نے نامعلوم افراد کے کہنے پر نجی فارم پر کام کرنے والے علیم سہیل کی اہلیہ ثنا سہیل اور ان کی بیٹیوں 12 سالہ حریم، 7 سالہ لائبہ اور 3 سالہ نمرہ کو 17 ستمبر کو لاہور سے اغوا کیا۔
درخواست کے مطابق بعد ازاں خاتون کو اسلام آباد کے تھانہ ترنول میں ایک جعلی مقدمے میں ملوث کر دیا گیا۔
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ 17 ستمبر کی سی سی ٹی وی فوٹیج سے ثابت ہوتا ہے کہ خاتون اور ان کے بچوں کو صبح تقریباً 7 بجے پنجاب پولیس کی مدد سے حراست میں لیا گیا اور اسلام آباد منتقل کیا گیا۔
بعد ازاں ان کی گرفتاری ایف آئی آر میں ظاہر کی گئی، جو 3 دن بعد پاکستان پینل کوڈ اور آرمز آرڈیننس کی مختلف دفعات کے تحت درج کی گئی تھی۔
جج نے ریمارکس میں کہا کہ یہ واقعہ ایف آئی آر درج ہونے سے پہلے پیش آیا، جس سے پولیس کارروائی کی قانونی حیثیت پر ’سنگین سوالات‘ اٹھتے ہیں۔
تفتیشی افسر اس بات کی وضاحت نہ کر سکا کہ کارروائی کا حکم کس نے دیا یا اسلام آباد کے سی آئی اے سینٹر میں برآمد ہونے والی 2 سوزوکی آلٹو گاڑیوں اور دیگر گاڑیوں کی موجودگی کا جواز کیا تھا۔
ہائی کورٹ نے اسلام آباد پولیس چیف کو 28 اکتوبر کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے اور تھانہ ترنول کے ایس ایچ او اور تفتیشی افسر کے طرزِ عمل کی وضاحت پیش کرنے کا حکم دیا۔
سی آئی اے سینٹر کے ایس پی کو بھی گاڑیاں پیش کرنے اور ان کی تحویل سے متعلق تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی گئی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل کو طلب کیا اور مبینہ اغوا، زبردستی داخل ہونے اور جھوٹے مقدمات کے اندراج کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دیا، ایف آئی اے کے ڈی جی کو تحقیقات کی نگرانی کی ہدایت دی گئی۔
عدالتی حکم میں نشاندہی کی گئی کہ ڈیوٹی جوڈیشل مجسٹریٹ یاسر محمود چوہدری نے ثنا سہیل کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا اور ان کے بچوں کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے حوالے کر دیا، مگر بچوں کی فلاح کے حوالے سے قانون کے مطابق انکوائری نہیں کی گئی۔
ہائی کورٹ کے ممبر انسپکشن ٹیم کو مجسٹریٹ کو طلب کر کے وضاحت لینے کی ہدایت کی گئی۔
لینڈ اسکینڈل
یہ مقدمہ اعلیٰ سطح کی اس انکوائری سے منسلک ہے جو جوائنٹ انکوائری کمیٹی نے کی تھی، کمیٹی میں اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر عرفان نواز میمن، آئی ایس آئی اور آئی بی کے ڈائریکٹر جنرلز، اسلام آباد پولیس کے سینئر سپرنٹنڈنٹ اور ایک نیول کمانڈر شامل تھے، اس کمیٹی نے اسلام آباد کے علاقے میرا بیگوال میں 136 کنال زمین سے متعلق ایک منظم فراڈ بے نقاب کیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق یہ زمین جعلی جنرل پاور آف اٹارنی (جی پی اے) اور جھوٹے دستاویزات کے ذریعے منتقل کی گئی تھی، جی پی اے پر زمین کے مالک مشرف رسول سیان کے اصلی دستخط اور انگوٹھے کے نشانات موجود تھے، مگر فروخت کی شق بعد میں شامل کی گئی۔
تحقیقات میں جعلی اسٹامپ پیپرز، جھوٹے حلف نامے اور 38 کروڑ 38 لاکھ روپے سے زائد کی مالی لین دین کا سراغ لگایا گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے مقدمے کے مدعی محمد وقاص کو رپورٹ میں مشرف رسول سیان کا فارم ملازم بتایا گیا، جسے زمین فراہم کرنے والے فیصل ممتاز اور پاکستان نیوی بینیولنٹ ایسوسی ایشن (پی این بی اے) کی جانب سے رقوم موصول ہوئیں، وقاص جس کی ماہانہ تنخواہ 50 ہزار روپے تھی، نے مجموعی طور پر 32 کروڑ 69 لاکھ روپے نکلوائے یا منتقل کیے۔
دوسرا ملازم علیم سہیل اور ان کی اہلیہ ثنا سہیل ( جنہیں مبینہ طور پر اغوا کیا گیا) کے اکاؤنٹس میں بھی بھاری غیر واضح رقوم جمع ہوئیں۔
جوائنٹ انویسٹی گیشن کمیٹی نے حیرت کا اظہار کیا کہ پاکستان نیوی بینیولنٹ ایسوسی ایشن اور فیصل ممتاز نے زمین کی ملکیت کی تصدیق یا اصل مالک سے رابطے کے بغیر اتنی بڑی رقم ایک فارم ورکر کو کیوں دی۔
کمیٹی نے جعلی انتقال منسوخ کرنے، ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی، اثاثے منجمد کرنے اور پراپرٹی رجسٹریشن و بائیو میٹرک نظام میں اصلاحات کی سفارش کی۔












لائیو ٹی وی