طالبان حملوں کے باوجود پاکستان مذاکرات کا خواہشمند

اسلام آباد: پاکستان میں قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے مشیر سرتاج عزیز نے کل بروز جمعرات تین اکتوبر کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ تمام رکاوٹوں کے باوجود حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کی خواہشمند ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم طالبان کے ساتھ مذاکرات کے مؤقف پر قائم رہیں گے اور ہمارا خیال ہے کہ حالیہ شدت پسند حملوں کے پیچھے بیرونی عناصر ملوث ہیں جو ابتدائی مصالحتی عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔
سرتاج عزیز نے ان خیالات کا اظہار گزشتہ روز برطانیہ کی سینیئر وزیر برائے خارجہ سعیدہ وارثی سے ملاقات کے بعد اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران کیا۔
انہوں نے کہا کہ کچھ عناصر مذاکرات کے خلاف ہیں لیکن بات چیت کا مقصد یہی ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کا سلسلہ ختم کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ سرحد پار سے کچھ عناصر شدت پسند گروہوں کو مدد فراہم کر رہے ہیں جس مذاکرات میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔
سرتاج عزیر نے یہ بھی کہا کہ حکومت کے پاس ایسے ثبوت موجود ہیں کہ دہشت گردانہ حملوں میں ملوث شدت پسندوں کو بالواسطہ طور پر بیرونی حمایت حاصل ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ مہینے 9 ستمبر کو ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں حکومت نے طالبان کو مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے مصالحتی عمل کی حمایت کی تھی، تاکہ ملک شدت پسندی کا ختمہ کیا جاسکے جس میں اب تک چالیس ہزار سے بھی زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
مذاکرات کی حکومتی پیشکش کے ایک یفتے کے بعد ہی شدت پسندی کی ایک نئی لہر نے جنم لیا جس کے دوران اپردیر میں فوجی قافلے پر حملہ اور پھر پشاور میں تین بڑے حملوں میں 150 افراد ہلاک ہوئے۔
ان حملوں کی ذمہ داری ابتدائی طور کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے گروہوں کی جانب سے قبول کی گئی، جبکہ سوات سے تعلق رکھنے والے طالبان کے گروہ نے فوج کے جنرل ثنااللہ کے قافلے پر کیے جانے والے حملے کی ویڈیو بھی جاری کی۔
تاہم مذاکرات کی پیشکش پر بڑھتی ہوئی تنقید کے بعد طالبان گروپس نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کی ترید کی
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی بین الاقوامی غلطیوں کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ سوویت یونین کے ساتھ جنگ کے دوران امریکا کی طرف جن لوگوں کو مالی مدد اور تربیت فراہم کی گئی تھی وہ دہشت گردی پھیلانے کے لیے واپس یہاں آئے تھے.
واضح رہے کہ دو ہزار سات سے طالبان نے پاکستانی ریاست کے خلاف خونی جنگ کا اعلان کر رکھا ہے جبکہ امن کے لیے اس نے سخت شرائط کا مقرر کی ہیں جن میں قبائلی علاقوں سے فوج کی واپسی اور قیدیوں کی رہائی شامل ہیں۔
سرتاج عزیز کے یہ بیانات ایسے موقع پر سامنے آئے ہیں جب گزشتہ روز ٹی ٹی پی نے کہا تھا کہ امن مذاکرات کے بارے میں غور صرف اسی وقت ہوگا جب قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے بند ہوں گے۔
طالبان کی جانب سے امریکی ڈرون حملوں کو روکنے کے مطالبے کا جواب دیتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا کہ حکومتی حکمتِ عملی میں امریکا اور عالمی فورمز اور سفارتی رابطوں کے ذریعے ان حملوں کو بند کرنے پر زور دیا گیا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ ناقدین پہلے ہی اس عمل کے خلاف ہیں۔
سعیدہ وارثی پاکستان اور برطانیہ کے درمیان تجارت میں اضافے پر بات چیت کرنے پاکستان آئی تھیں، ان کا کہا تھا کہ مذاکرات کے ابتدائی عمل میں اعتماد کی کمی ہے۔
لیکن ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کسی بھی قسم کے مذاکرات جن سے پاکستان امن کا قیام وجود میں آئے ہم اس کا خیرمقد کریں گے۔
ان کا کہا تھا کہ انتہا پسند پاکستان اور اسلام کی بڑے دشمن ہیں جو پاکستانیوں اور مسلمانوں کی امیدوں کو ختم کررہے ہیں۔
عالمی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مشیرِ خارجہ سرتاج عزیر نے کہا کہ حالیہ واقعات کے باوجود مذاکرات کے آپشن کو آگے کی سمت لے جانا چاہیے کیونکہ طالبان کے بہت سے گروپس ہیں اور ان میں سے کئی گروپس کہہ چکے ہیں کہ وہ مذاکرات نہیں کرنا چاہتے۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں جان لیوا بم دھماکوں کے باوجود پاکستان کی حکومت شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی خواہش مند ہے۔
ادھر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے طالبان سے نتیجہ خیز مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ امن دشمن مذاکرات سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔
پی ٹی آئی کور کمیٹی کے پہلے اجلاس کے بعد نیوز کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈرون حملے اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں چل سکتے جبکہ وفاقی حکومت اس حوالے سے کچھ نہیں کررہی۔
ان کے مطابق ڈرون حملے اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں چل سکتے جبکہ شمالی وزیرستان میں آپریشن بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا۔
عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ پشاور دھماکے میں ملوث ہونے کی طالبان نے تردید کی تھی اور یہ دھماکہ پاکستان دشمنوں نے کروائے تھے۔