گمراہ کن تشہیر: مسابقتی کمیشن کےخلاف ٹیلی کام کمپنیوں کی درخواستیں خارج
اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسابقتی کمیشن پاکستان (سی سی پی) کے ٹیلی کام سیکٹر میں گمراہ کن مارکیٹنگ اور غیر منصفانہ مسابقتی رویوں کی تحقیقات کے دائرہ اختیار کو برقرار رکھتے ہوئے بڑی ٹیلی کام کمپنیوں جیز، ٹیلی نار، زونگ، یوفون، وارد، پی ٹی سی ایل اور وائی ٹرائب کی جانب سے دائر درخواستیں مسترد کر دیں۔
جسٹس انعام امین منہاس نے اپنے تفصیلی 19 صفحات پر مشتمل فیصلے میں قرار دیا کہ سی سی پی نے جب ٹیلی کام آپریٹرز کو گمراہ کن اشتہارات اور پری پیڈ صارفین پر اضافی سروس چارجز عائد کرنے کے حوالے سے شوکاز نوٹس جاری کیے تو کمپیٹیشن ایکٹ 2010 کے تحت اپنے اختیارات قانونی طور پر استعمال کیے۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ سی سی پی کا قانونی دائرہ اختیار معیشت کے تمام شعبوں تک پھیلا ہوا ہے جس میں ٹیلی کمیونی کیشنز بھی شامل ہے، اور یہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے ساتھ بیک وقت کام کرتا ہے۔
درخواست گزاروں نے ان شوکاز نوٹسز کو چیلنج کیا تھا، جو 2013 اور 2014 کے درمیان سی سی پی نے موبائل آپریٹرز کو جاری کیے تھے، ان پر الزام تھا کہ وہ پری پیڈ کارڈز پر پوشیدہ ’سروس مینٹیننس‘ یا ’ری چارج‘ فیس وصول کر رہے تھے۔
یہ ایک ایسا عمل ہے، جسے سی سی پی نے ایکٹ کی شق 10(2)(b) کے تحت گمراہ کن مارکیٹنگ قرار دیا تھا، اسی طرح، پی ٹی سی ایل اور وائی ٹرائب نے بھی ’لامحدود انٹرنیٹ پیکجز‘ کی تشہیر پر نوٹسز کو چیلنج کیا تھا جو دراصل ’فیئر یوز پالیسی‘ کے تابع تھے۔
ایک علیحدہ درخواست (W.P. 2757/2023) میں، پی ٹی سی ایل نے سی سی پی کی جانب سے فکسڈ لوکل لوپ (ایف ایل ایل) سروسز میں امتیازی قیمتوں کے الزام پر شروع کی گئی انکوائری کو روکنے کی استدعا کی تھی۔
ٹیلی کام کمپنیوں نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ پی ٹی اے کو ٹیلی کام سیکٹر میں مسابقتی امور پر خصوصی اختیار حاصل ہے، تاہم عدالت نے فیصلے کے پیرا 22 میں کہا کہ سی سی پی کو معیشت کے تمام شعبوں پر وسیع دائرہ اختیار حاصل ہے، جس میں ٹیلی کمیونی کیشنز بھی شامل ہیں۔
فیصلے کے مطابق سی سی پی کے اختیارات محض ضابطہ سازی تک محدود نہیں بلکہ غیر منصفانہ مسابقتی رویوں، اجارہ داری کے غلط استعمال، ملی بھگت اور گمراہ کن مارکیٹنگ کے انسداد تک پھیلے ہوئے ہیں۔
عدالت نے مزید قرار دیا کہ دونوں قوانین، یعنی ٹیلی کمیونی کیشن (تنظیم نو) ایکٹ 1996 اور کمپیٹیشن ایکٹ 2010، الگ مگر تکمیلی دائرہ کار میں کام کرتے ہیں، جہاں پی ٹی اے تکنیکی اور آپریشنل امور کو ریگولیٹ کرتی ہے، وہیں سی سی پی کو مسابقتی اور گمراہ کن مارکیٹنگ کے معاملات دیکھنے کا بنیادی اختیار حاصل ہے۔
جج نے زور دیا کہ حتیٰ کہ ریگولیٹری ادارے جیسے پی ٹی اے بھی سی سی پی کے دائرہ کار میں آتے ہیں، کیونکہ ایکٹ کی شق 2(1)(q) کے تحت ’انڈرٹیکنگ‘ میں حکومتی یا ریگولیٹری ادارے بھی شامل ہیں۔
عدالت نے درخواستوں کو یہ کہتے ہوئے قبل از وقت (پری میچور) بھی قرار دیا کہ سی سی پی کے شوکاز نوٹس صرف طریقہ کار کا حصہ ہیں، کوئی حتمی یا نقصان دہ حکم نہیں۔
جسٹس انعام امین منہاس نے مشاہدہ کیا کہ درخواست گزاروں کے پاس کمیشن، اس کے اپیلیٹ بینچ اور کمپیٹیشن اپیلٹ ٹریبونل کے سامنے قانونی چارہ جوئی کے مناسب فورم دستیاب ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ اس ابتدائی مرحلے پر مداخلت کرنا ایک قانونی ادارے کو اس کے مجاز اختیارات کے استعمال سے روکنے کے مترادف ہوگا اور کمپیٹیشن ایکٹ 2010 کے پسِ منظر میں قانون ساز کی نیت کو نقصان پہنچائے گا۔
عدالت نے یہ قرار دیتے ہوئے کہ سی سی پی، ٹیلی کام سیکٹر میں گمراہ کن اور غیر منصفانہ مسابقتی رویوں کی تحقیقات کرنے کے اپنے مکمل اختیارات کے اندر ہے، تمام 7 منسلک درخواستوں کو ’ناقابلِ سماعت‘ قرار دے کر خارج کر دیا۔












لائیو ٹی وی