اسلام آباد اور لاہور ہائیکورٹس میں احتساب کے مقدمات میں سنگل بینچ کے کردار پر اختلاف
اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے قرار دیا ہے کہ نیشنل اکاؤنٹیبلٹی آرڈیننس (این اے او) 1999 کے تحت پیدا ہونے والے تمام معاملات کو ڈویژن بینچز میں سنا جانا چاہیے، یہ تعبیر براہِ راست لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) کے راولپنڈی بینچ کے ایک فیصلے سے متصادم ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے بینچ نے اس سال کے اوائل میں قرار دیا تھا کہ ایسے مقدمات عموماً ایک رکنی بینچ کے ذریعے سنے جانے چاہییں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محمد اعظم خان کی جانب سے ایک فوجداری اپیل میں تحریر کیے گئے تفصیلی فیصلے میں نیب (قومی احتساب بیورو) سے متعلق مقدمات کو 2 یا زیادہ ججوں پر مشتمل ڈویژن بینچز کے حوالے کرنے کی آئینی اور قانونی بنیادوں کی وضاحت کی گئی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ’نیشنل اکاؤنٹیبلٹی آرڈیننس کے تحت کارروائیاں معمول کے آئینی درخواستوں یا فوجداری مقدمات کی طرح نہیں ہیں، یہ ادارہ جاتی احتساب، عوامی پیسے کے تحفظ، اور منصفانہ ٹرائل کی آئینی ضمانتوں سے متعلق ہیں۔
فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 192 کا حوالہ دیا گیا ہے، جس کے مطابق ہر ہائی کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ایک رکنی اور بڑے بینچوں کے درمیان مقدمات کی تقسیم سے متعلق اپنے اصول و ضوابط طے کرے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ چوں کہ این اے او ایک خصوصی قانون ہے، جو عوامی عہدہ رکھنے والے افراد سے متعلق ہے، لہٰذا یہ ایسے مقدمات کی قسم میں آتا ہے، جن میں قانونی پیچیدگی یا عوامی مفاد زیادہ ہوتا ہے، اور اس لیے ان پر ایک سے زائد ججوں کی نگرانی ضروری ہے۔
عدالت نے آرٹیکل 192 اور اسلام آباد ہائی کورٹ (پروسیجر) رولز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ این اے او کے مقدمات کو ڈویژن بینچ کے سپرد کرنا آئینی تحفظ ہے، جو عدالتی توازن، فیصلوں میں یکسانیت اور احتسابی عمل کی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے وضع کیا گیا ہے۔
مزید برآں، عدالت نے این اے او کی شق 32 پر بھی غور کیا، جو یہ طے کرتی ہے کہ احتساب عدالتوں سے آنے والی اپیلیں ڈویژن بینچز کے سامنے پیش کی جائیں گی۔
عدالت کے مطابق، یہ شق قانون ساز کی اس نیت کو ظاہر کرتی ہے کہ نیب مقدمات پر اعلیٰ عدالتی جانچ ہو، اور اسی اصول کے تحت تمام کارروائیوں کو بھی ڈویژن بینچز میں سنا جانا چاہیے۔
تاہم، یہ تشریح لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ کے اپریل کے فیصلے سے براہِ راست متضاد ہے، جو جسٹس جواد حسن اور جسٹس طارق محمود باجوہ نے دیا تھا۔
ان ججوں نے قرار دیا تھا کہ آئینی درخواستیں ایک رکنی بینچ کے ذریعے سنی جانی چاہئیں، کیوں کہ عدالت کے قواعد اس کی اجازت دیتے ہیں، جب تک کہ کوئی قانون واضح طور پر اس کے برعکس حکم نہ دے، شق 32 صرف احتساب عدالتوں کے حتمی فیصلوں کے خلاف اپیلوں کے لیے ڈویژن بینچز کا اختیار دیتی ہے، ابتدائی درخواستوں کے لیے نہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر ابتدائی درخواستوں کو براہِ راست ڈویژن بینچ کے سامنے سنا جائے تو یہ فریقین کو اپیل کے حق سے محروم کر دیتا ہے، اور آئین کے آرٹیکل 10-اے (منصفانہ ٹرائل کا حق) سے متصادم ہے۔













لائیو ٹی وی