دنیا کو صحت کے شعبے میں ہنگامی مالیاتی صورتحال کا سامنا ہے، ڈبلیو ایچ او

شائع November 4, 2025
2025 میں صحت کیلئے بیرونی امداد 2023 کے مقابلے میں 30 فیصد سے زیادہ کم ہونے کا امکان ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی
2025 میں صحت کیلئے بیرونی امداد 2023 کے مقابلے میں 30 فیصد سے زیادہ کم ہونے کا امکان ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ کئی ممالک جیسے جیسے بڑھتے ہوئے قرضوں اور گرتی ہوئی امداد سے نبردآزما ہیں، صحت کے اہم نظاموں کی مالی معاونت کے بحران سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق اقوامِ متحدہ کے ادارے نے ممالک کے لیے گائیڈ لائن جاری کی ہے کہ وہ بیرونی فنڈنگ میں اچانک اور شدید کمی کے فوری اور طویل المدتی اثرات سے کس طرح نمٹیں، کیونکہ اس کمی نے کئی جگہوں پر بنیادی صحت کی خدمات کو شدید متاثر کیا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس ادھانوم گیبریسس نے جنیوا میں افریقی یونین کے رکن ممالک کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا اس وقت صحت کے شعبے میں ہنگامی مالیاتی صورتحال کا سامنا کر رہی ہے، جس سے نمٹنے کے لیے فوری اور مشترکہ اقدامات ناگزیر ہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکا (جو روایتی طور پر دنیا کا سب سے بڑا ڈونر ہے) نے غیر ملکی امداد میں نمایاں کمی کی، جس سے دنیا بھر میں مسائل پیدا ہوئے ہیں، جب کہ دیگر بڑے امدادی ممالک نے بھی اپنے اخراجات محدود کر لیے ہیں۔

افریقی ممالک زیادہ متاثر

یہ صورتحال خاص طور پر افریقی اور دیگر غریب ممالک میں تباہ کن ثابت ہوئی ہے، جو بنیادی صحت کی ضروریات کے لیے غیر ملکی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق، 2025 میں صحت کے لیے بیرونی امداد 2023 کے مقابلے میں 30 فیصد سے زیادہ کم ہونے کا امکان ہے۔

مارچ کے اعداد و شمار کے مطابق، تقریباً 70 فیصد کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں صحت کی خدمات میں فوری تعطل دیکھا گیا۔

ٹیڈروس ادھانوم نے کہا کہ یہ اچانک کٹوتیاں صحت کے نظاموں اور خدمات میں وسیع پیمانے پر خلل پیدا کر رہی ہیں، اب ایک تہائی ممالک بنیادی ادویات اور صحت کے پروگراموں کی شدید قلت کی اطلاع دے رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان اچانک کٹوتیوں سے پہلے بھی صحت کے لیے فنڈنگ ناکافی تھی، کیونکہ کوویڈ-19 وبا کے دوران قرضوں میں اضافہ ہوا اور شعبہ صحت کی طویل المدتی مالی کمی مزید بگڑ گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ بحران ’امداد پر انحصار کو ختم کر کے خودمختاری، خود انحصاری اور یکجہتی کے نئے دور‘ کا آغاز کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

گلوبل فنڈ (ایڈز، تپ دق اور ملیریا کے خلاف عالمی فنڈ) کے سربراہ پیٹر سینڈز نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اب یہ پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ افریقی ممالک خود انحصاری کی جانب اپنی پیش رفت کو تیز کریں۔

عدم مساوات میں اضافہ

اقوامِ متحدہ کے زیر اہتمام گلوبل کونسل برائے عدم مساوات، ایڈز اور وباؤں کی رپورٹ، جو اس ماہ جنوبی افریقہ میں ہونے والے جی-20 اجلاسوں سے قبل شائع ہوئی، اس میں کہا گیا ہے کہ ممالک کے اندر اور ان کے درمیان عدم مساوات کی بلند سطح دنیا کو وباؤں کے لیے زیادہ کمزور، زیادہ تباہ کن، زیادہ مہنگا، زیادہ طویل اور زیادہ جان لیوا بنا رہی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ وبائیں عدم مساوات کو مزید بڑھاتی ہیں، یوں یہ ایک چکّر نما، خود تقویت پانے والا رشتہ بن جاتا ہے۔

یہ کونسل نوبیل انعام یافتہ ماہرِ معاشیات جوزف اسٹِگلٹز، نامیبیا کی سابق خاتونِ اوّل مونیکا جینگوس، اور عالمی وبائیات کے ماہر سر مائیکل مارموٹ جیسے ممتاز ماہرین کی سربراہی میں کام کر رہی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ کووڈ-19 کے بعد عدم مساوات اور سماجی عوامل سے نمٹنے میں ناکامی نے دنیا کو اگلی وبا کے لیے انتہائی کمزور اور تیاری کے بغیر چھوڑ دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، کووڈ-19 وبا نے 16 کروڑ 50 لاکھ افراد کو غربت میں دھکیل دیا، جب کہ دنیا کے امیر ترین افراد نے اپنی دولت میں ایک چوتھائی سے زیادہ اضافہ کیا ہے۔

مونیکا جینگوس نے کہا کہ عدم مساوات ایک سیاسی انتخاب ہے، اور ایک خطرناک انتخاب، جو سب کی صحت کے لیے خطرہ ہے۔

رپورٹ نے عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ وبائی امراض سے نمٹنے کی تیاری کے لیے اپنے ممالک میں سماجی تحفظ کے نظام میں سرمایہ کاری کریں، اور ساتھ ہی عالمی سطح پر عدم مساوات کو کم کرنے کے اقدامات کریں، جن میں ترقی پذیر ممالک کے قرضوں کی تنظیمِ نو بھی شامل ہے۔

جوزف اسٹِگلٹز نے کہا کہ وبائیں صرف صحت کے بحران نہیں ہوتیں، یہ معاشی بحران بھی ہیں جو غلط پالیسی فیصلوں کی صورت میں عدم مساوات کو گہرا کر سکتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب وباؤں سے متاثرہ معیشتوں کو اعلیٰ سود والے قرضوں یا کفایت شعاری کی پالیسیوں کے ذریعے مستحکم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، تو اس سے صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے شعبے کمزور ہو جاتے ہیں۔

اس کے نتیجے میں معاشرے کمزور اور بیماریوں کے پھیلاؤ کے لیے زیادہ حساس ہو جاتے ہیں۔

اسٹِگلٹز نے اختتام پر کہا کہ اس چکر کو توڑنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام ممالک کے پاس اتنی مالی گنجائش ہو کہ وہ صحت کے تحفظ میں سرمایہ کاری کر سکیں۔

کارٹون

کارٹون : 6 نومبر 2025
کارٹون : 5 نومبر 2025