27ویں ترمیم کی بازگشت: ’اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے خوشگوار تعلقات پر سوال اٹھانے کی کوئی وجہ نہیں‘
تقسیم یا پولرائزیشن کے شکار اس دور میں صرف عوام نہیں بلکہ سیاستدان بھی ہیں جو ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہیں۔ ٹیلی ویژن اسٹوڈیوز میں ایک دوسرے پر ان کے حملے حقیقت بن چکے ہیں، اس حد تک کہ جب وہ کسی بڑے مقصد کے لیے متحد ہوتے ہیں، تو اسے شاذ و نادر ہی محسوس کیا جاتا ہے اور اس سے بھی کم سراہا جاتا ہے۔
چند سال قبل کے اس لمحے پر غور کریں جب ان سب نے جنرل باجوہ کی توسیع کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہاتھ ملائے تھے۔ یہ ایک بڑے مقصد کے لیے تھا، اس وقت بہت کم لوگوں نے محسوس کیا کیونکہ وہ پارلیمنٹیرینز کو ہدف تنقید بنانے میں مصروف تھے۔
اسی طرح کی صورت حال پنجاب میں حالیہ دنوں دیکھنے میں آئی کہ جب سیاستدان صوبائی اسمبلی کی چھت تلے جمع ہوئے تاکہ بلدیاتی نظام یا مقامی حکومتوں کے مطالبے میں قرارداد کو منظور کیا جاسکے۔
مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے نوجوان اراکینِ صوبائی اسمبلی کی جانب سے مشترکہ طور پر پیش کیا جانے والا مسودہ اتنا متاثر کُن تھا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے صوبائی اراکین نے بھی اس کے حق میں ووٹ دیا۔ دونوں فریقین وفاق یا کسی اور صوبے میں تو حالتِ جنگ میں تو ہو سکتے ہیں لیکن پنجاب میں مقامی حکومتوں کے معاملے میں سب ہی شیر و شکر نظر آئے۔
انہوں نے ایسے بلدیاتی اداروں کا مطالبہ کیا ہے جنہیں آئینی تحفظ حاصل ہو اور جن کے کام کی مدت اور ذمہ داریاں واضح طور پر متعین کی گئی ہوں۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بلدیاتی اداروں کی مدت مکمل ہونے یا انہیں تحلیل کیے جانے کے 90 دن کے اندر نئے انتخابات لازمی کروائے جائیں اور صوبائی فنانس کمیشن کو نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) سے منسلک کیا جائے۔
نہ صرف قانون ساز اس مطالبے کے لیے اکٹھے ہوئے بلکہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ملک احمد خان جو ماضی میں نہ صرف اپنی جماعت بلکہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے پُرجوش دفاع کے لیے بھی جانے جاتے ہیں، نے وقت نکال کر ایک پریس کانفرنس میں اس قرارداد کے لیے حمایت کا اظہار کیا۔ ایک خبر کے مطابق انہوں نے خبردار کیا کہ اگر مؤثر مقامی حکومت موجود نہ ہو تو ریاست اور عوام کے درمیان تعلق کمزور پڑ جاتا ہے۔
انہوں نے یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں کو بلدیاتی نظام کو نقصان پہنچانے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور سیاسی جماعتوں کو محض سیاسی مقاصد کے لیے بلدیاتی اداروں کی مدت کم کرنے سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔
یہ سب اُن لوگوں کے منہ پر طمانچہ تھا جو سیاستدانوں پر الزام لگاتے آئے ہیں کہ وہ بلدیاتی اداروں کے خلاف ہیں اور عوام کی ضروریات میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
لیکن سیاسی طبقے کے خلاف منفی ذہن سازی کے سلسلے کو دہائیاں گزر چکی ہیں۔ عوام میں بےاعتمادی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ یہ سمجھنا مشکل ہوگیا ہے کہ وہی سیاستدان جو بلدیاتی اداروں کے بارے میں فکرمند دکھائی دیتے ہیں، حال ہی میں پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والے اُس قانون کی حمایت میں بھی کیوں شامل تھے جو بظاہر انہی اصولوں کے منافی ہے جن کے بارے میں وہ اتنے بے چین ہیں۔
یہ نیا قانون گزشتہ ماہ منظور کیا گیا ہے اور اس پر تنقید کی جا رہی ہے کہ اس کے ذریعے اصل اختیارات صوبائی حکومت اور بیوروکریسی کے پاس رہیں گے۔ جس پہلو نے سب سے زیادہ توجہ حاصل کی ہے، وہ یہ ہے کہ نئے قانون کے تحت بلدیاتی انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر کروائے جائیں گے لیکن یہ صرف ووٹ ڈالنے اور گنتی کی حد تک ہوگا۔
جو امیدوار آزاد حیثیت سے کامیاب ہوں گے، ان کے پاس 30 دن کے اندر کسی سیاسی جماعت میں شمولیت کا اختیار ہوگا مگر اس مدت کے بعد نہیں۔
جو لوگ سیاستدانوں پر اعتماد کھو چکے ہیں، وہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ صورت حال جنرل ضیا الحق کے دور کے انتخابات کی یاد تازہ کرتی ہے۔ انہوں نے بھی پیپلز پارٹی کی ممکنہ کامیابی کے خدشے کے پیش نظر غیرجماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے تھے لیکن اس امید پر کہ اس طرح ایک ایسی پارلیمنٹ وجود میں آئے گی جسے وہ آسانی سے قابو میں رکھ سکیں گے۔
لیکن یہ تجزیہ تھوڑا غیرحقیقی معلوم ہوتا ہے۔ آخر کوئی بھی شخص یہاں تک کہ کوئی ایسا شخص بھی جو سیاستدانوں پر بھروسہ نہیں کرتا، یہ کیوں سوچے گا کہ قانون ساز صرف وہی کرنے کے لیے قانون منظور کریں گے جو ایک فوجی حکمران کی خواہش ہے؟ اور کون یقین کرے گا کہ آج کے منتخب سیاستدان اسی طرح کام کریں گے جیسا کہ 40 سال پہلے سیاستدان کیا کرتے تھے؟ اس کے بعد سے دنیا بدل چکی ہے اور پاکستان بھی۔
درحقیقت اگر 40 سال پہلے کی صورت حال سے موازنہ کرنا ہو تو 1985ء کی اسمبلی اور اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو اتنی رکاوٹیں ڈالنے والے ثابت ہوئے کہ ضیا الحق کو ان کی حکومت کو تحلیل کرنا پڑا تھا۔ لیکن موجودہ دور میں ایسی کوئی مشکلات نہیں ہیں کیونکہ آج سیاستدان اور اسٹیبلشمنٹ ایک طرح کی ہم آہنگی کی حالت میں ہیں جہاں دونوں ‘ہم ساتھ ساتھ ہیں’ کا نعرہ لگاتے نظر آتے ہیں۔
ان خوشگوار تعلقات پر سوال اٹھانے کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے جوکہ کافی حد تک قدرتی لگتی ہے۔ درحقیقت یہ صرف حسنِ اتفاق ہے کہ پنجاب اسمبلی میں سیاستدانوں نے بلدیاتی نظام کی ضرورت اور اہمیت کو دریافت کرلیا ہے اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں کہ جب اسلام آباد اور ایک قریبی شہر میں حکومت اور معیشت کو ‘ٹھیک’ کرنے کے طریقوں پر بحث (جو کئی ماہ سے چل رہی ہے) کی گونج سنائی دے رہی ہے۔
سوال یہ تھا کہ کیا معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے صرف این ایف سی کی تشکیل نو کافی ہوگی یا 4 صوبوں کو مزید تقسیم کرکے کسی گورننس مسئلے کو بھی حل کرنے کی ضرورت پیش آئے گی؟
بہت سے لوگوں کا کہنا تھا کہ سیاسی طور پر نئے صوبوں کا قیام مشکل ہے جبکہ بااختیار بلدیاتی اداروں کو یقینی بنانا آسان ہوسکتا ہے۔ حل کے حوالے سے ان تمام بات چیت کے درمیان یہ افواہ بھی گردش کررہی ہے کہ 27واں آئینی ترمیمی بل (جس کے بارے میں سب کو توقع تھی کہ یہ آنے والا ہے) کو عدلیہ میں معمولی تبدیلیوں کے علاوہ مزید اصلاحات کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
تاہم اس وقت واقعی کسی کے پاس کوئی ٹھوس جواب نہیں ہے اور اب تک حکومت اس بات پر اصرار کرتی رہی ہے کہ وہ کسی ممکنہ ترمیم کے مسودے پر کام نہیں کر رہی۔ یہ وہ جواب ہے جو متعدد حکومتی وزرا نے اپنے انٹرویوز کے دوران دیا ہے۔
لیکن حزبِ اختلاف کے ایک رکن کے بیان نے معاملے میں توجہ حاصل کی۔ جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے ایک ٹیلی ویژن ٹاک شو کے دوران کہا کہ آئین میں 27ویں ترمیم کا مسودہ جلد ہی پارلیمنٹ میں پیش کیا جا سکتا ہے۔
لگتا ہے میں آج کچھ زیادہ ہی موضوع سے بھٹک چکی ہوں۔ پنجاب اسمبلی کے قانون سازوں کو عوام کی اتنی پروا ہے کہ وہ آئین کے تحت بلدیاتی نظام کو تحفظ فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ وہ اچھا مقصد تھا جس کے لیے پی پی پی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی ایک صفحے پر آئیں اور جس کا مل کر سب نے مطالبہ کیا۔ ہم لوگوں کو اس زبردست اقدام کو سراہنا چاہیے اور اس پر سوال نہیں اٹھانا چاہیے۔
آخر میں، میں یہ شامل کرتی چلوں کہ تادمِ تحریر بلاول بھٹو زرداری نے ایکس پر پوسٹ کیا کہ مسلم لیگ (ن) نے پی پی پی سے 27ویں ترمیم پر حمایت کے لیے رابطہ کیا ہے جوکہ این ایف سی سمیت دیگر مسائل پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔













لائیو ٹی وی