بنگلہ دیش میں اختلافات کے باعث جمہوری اصلاحات کا منصوبہ تعطل کا شکار
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے کہا ہے کہ سیاست دانوں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے ایک اہم جمہوری اصلاحاتی منصوبہ تعطل کا شکار ہوگیا ہے، اور حکومت نے سیاسی جماعتوں کو ایک ہفتے کی مہلت دی ہے کہ وہ اتفاقِ رائے پیدا کریں، ورنہ حکومت یکطرفہ کارروائی کرے گی۔
ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق نوبیل انعام یافتہ محمد یونس، جو اس وقت چیف ایڈوائزر (سربراہ مشیر) کے طور پر حکومت کی قیادت کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کی عوامی بغاوت کے بعد ایک مکمل طور پر تباہ حال سیاسی نظام ورثے میں ملا تھا۔
یونس کے مطابق، یہ اصلاحاتی چارٹر (جسے وہ اپنی سیاسی میراث کا سنگِ بنیاد قرار دیتے ہیں) ملک کو آمریت کی واپسی سے بچانے کے لیے ضروری ہے۔
اہم سیاسی جماعتوں نے اکتوبر میں ایک تقریب کے دوران اس دستاویز پر دستخط کیے تھے، لیکن کچھ جماعتوں نے مطالبہ کیا کہ اسے ریفرنڈم (عوامی رائے شماری) کے ذریعے منظور کیا جائے۔
عبوری حکومت کے وزیرِ قانون آصف نذرول نے صحافیوں کو بتایا کہ طویل بات چیت کے باوجود سیاسی جماعتوں میں اب بھی کئی نکات پر، خاص طور پر ریفرنڈم کے وقت اور شامل کیے جانے والے موضوعات پر اختلاف موجود ہیں۔
یہ جولائی چارٹر، جو گزشتہ سال کی بغاوت سے منسوب ہے، اب سیاسی جماعتوں کے درمیان کشمکش کا مرکز بن گیا ہے، کیونکہ فروری 2026 کے عام انتخابات قریب آرہے ہیں۔
محمد یونس نے انتخابات کے بعد عہدہ چھوڑنے کا وعدہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ اصلاحاتی منصوبہ انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ کے درمیان توازن اور احتساب کو مضبوط بنائے گا۔
چارٹر میں وزرائے اعظم کے لیے دو مدت کی حد اور صدر کے اختیارات میں اضافے کی تجاویز شامل ہیں۔
آصف نذرول نے کہا کہ ہم سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جلد از جلد (بہتر ہے ایک ہفتے کے اندر) ریفرنڈم پر متحدہ مؤقف اختیار کریں، بصورتِ دیگر حکومت خود مختارانہ طور پر کارروائی کرے گی۔
بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے سینئر رہنما صلاح الدین احمد نے کہا کہ یہ فیصلہ عبوری حکومت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔
انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ میں نے کبھی کسی ریفری کو خود گول کرتے نہیں دیکھا۔
انتخابات میں بی این پی اور جماعتِ اسلامی، دونوں کو اہم امیدوار کے طور پر شمار کیا جا رہا ہے، جنہوں نے چارٹر پر دستخط کیے تھے۔
80 سالہ خالدہ ضیا کا الیکشن لڑنے کا اعلان
سابق وزیرِ اعظم خالدہ ضیا، جو بنگلہ دیش کی سیاسی تاریخ کی ایک مرکزی شخصیت رہی ہیں، نے پیر کے روز فروری 2026 کے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔
یہ اعلان مرزا فخرالاسلام عالمگیر نے کیا، جو بی این پی کے سینئر رہنما ہیں، انہوں نے کہا کہ 80 سالہ خالدہ ضیا 3 نشستوں سے انتخابات لڑیں گی۔
خالدہ ضیا کی صحت کئی سال کی قید کے بعد خراب ہے، یہ وہ عرصہ تھا جس میں ان کی سیاسی حریف شیخ حسینہ نے حکومت کی، جسے اگست 2024 میں عوامی بغاوت کے ذریعے ہٹا دیا گیا تھا۔
فخرالاسلام عالمگیر نے تصدیق کی کہ خالدہ ضیا کے بیٹے طارق رحمٰن (طارق ضیا) جو 2008 سے برطانیہ میں مقیم ہیں، وہ بھی انتخابات میں حصہ لیں گے۔
طارق رحمٰن کا کہنا ہے کہ وہ سیاسی انتقام سے بچنے کے لیے ملک چھوڑ کر گئے تھے اور اب تک بنگلہ دیش واپس نہیں آئے۔
موسیقی کے اساتذہ کی بھرتی کا منصوبہ منسوخ
بنگلہ دیش کی حکومت نے پیر کے روز پرائمری اسکولوں میں موسیقی کے اساتذہ کی بھرتی کا منصوبہ منسوخ کر دیا۔
ایک سرکاری اہلکار نے بتایا کہ اگست میں وزارتِ ابتدائی تعلیم نے ایک سرکلر جاری کیا تھا، جس میں موسیقی کے اساتذہ کی بھرتی کا اعلان کیا گیا تھا، تاہم عبوری حکومت نے اب یہ فیصلہ واپس لے لیا ہے۔
اہلکار کے مطابق حکومت نے اس فیصلے کو منسوخ کر کے باضابطہ حکم جاری کر دیا ہے، اب موسیقی اور جسمانی تعلیم دونوں کے عہدے ختم کر دیے گئے ہیں۔
یہ فیصلہ جماعتِ اسلامی اور دیگر مذہبی تنظیموں کے شدید احتجاج کے بعد کیا گیا، جو نصاب میں موسیقی کی شمولیت کی مخالفت کر رہی تھیں۔













لائیو ٹی وی