سرمایہ کاروں کی بڑھتی دلچسپی کے باوجود کیا سونے کی قیمتوں میں ٹھہراؤ ممکن ہے؟

شائع November 5, 2025

پاکستان میں تاجر اور ماہرین سونے کی مارکیٹ میں جلد استحکام کا بہت کم امکان ظاہر کرتے ہیں جہاں حال ہی میں مجموعی قیمتوں میں اضافے کا رجحان اور اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آیا ہے۔

ماہرین قیمتوں میں اضافے کی وجہ عالمی اور مقامی عوامل کے نایاب امتزاج کو قرار دیتے ہیں۔ وہ مسلح تنازعات میں اضافے، صدر ٹرمپ کی جانب سے امریکی ٹیرف کے دباؤ، ڈالر کی قدر میں اتار چڑھاؤ، جغرافیائی سیاسی تناؤ اور گھریلو اقتصادی پالیسیز میں اچانک تبدیلیوں کو بھی سونے کی عالمی قیمتوں میں تیز تبدیلی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔

مارکیٹ کے فیصلے انفرادی سرمایہ کاروں پر منحصر ہوتے ہیں کیونکہ پاکستان کے سونے کے شعبے کے بارے میں پیش گوئیاں زیادہ تر حقائق پر نہیں بلکہ تاجروں اور ماہرین کے اندازوں پر مبنی ہوتی ہیں۔

ملک کی سونے کی مارکیٹ کے بارے میں مکمل اور جامع اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں حالانکہ مختلف اداروں کے پاس مالیاتی لین دین اور قیمتی دھاتوں کی درآمدات اور برآمدات کے حوالے سے جزوی معلومات موجود ہیں لیکن سونے کی مارکیٹ زیادہ تر غیر رسمی ہے جو خود کو منظم کرتی ہے۔

اس کے باوجود اسٹیٹ بینک، وزارت خزانہ و تجارت یا پاکستان کے ادارہ شماریات سمیت کوئی بھی مارکیٹ کے سائز، طلب، رسد یا قیمت کے رجحانات کے حوالے سے معتبر، مستحکم اعداد و شمار فراہم نہیں کرپایا ہے۔ اس کے علاوہ سونے کی مختلف اقسام کے لیے قیمتیں، ہر روز تاجر گروپس کی جانب سے مقرر کی جاتی ہیں جن کا اعلان بھی وہی کرتے ہیں یعنی یہ قیمتیں اصل طلب اور رسد پر مبنی نہیں ہوتی ہیں۔

سال 2000ء کے بعد سے پاکستان میں سونے کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ 2001ء میں 10 گرام سونا تقریباً 5 ہزار روپے میں فروخت ہوتا تھا۔ آج اس کی قیمت 3 لاکھ 50 ہزار روپے سے تجاوز کر چکی ہے جوکہ حیرت انگیز طور پر قیمتوں میں 70 گنا اضافہ ہے۔ تاہم دیگر اثاثوں میں سرمایہ کاری جیسے کہ ریئل اسٹیٹ اور اسٹاک مارکیٹ میں بھی اسی عرصے کے دوران تیزی کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔

پاکستان کی سونے کی مارکیٹ نے گزشتہ ماہ شدید اتار چڑھاؤ دیکھا۔ 10 گرام سونے کی قیمت ایک وسیع دائرے میں گردش کرتی رہی۔ اکتوبر کا آغاز سونے کی قیمت 3 لاکھ 43 ہزار 200 روپے سے ہوا، 17 اکتوبر کو قیمت سب سے زیادہ 4 لاکھ 2 ہزار 100 روپے تک پہنچی اور اکتوبر کے آخر میں یہ کم ہو کر 3 لاکھ 61 ہزار 800 روپے ریکارڈ کی گئی۔

چاہے اثاثوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے کتنے ہی شعبے کیوں نہ دستیاب ہوں، سونا آج بھی ایک اہم وجودی اثاثے کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ رقم کو ذخیرہ کرنے کا ایک قابل اعتماد طریقہ ہے بالخصوص ایک ایسے وقت میں کہ جب معیشت کی صورت حال بے یقینی کا شکار ہو۔

اپنی مالی قدر کے علاوہ، اس قیمتی پیلی دھات کی خطے میں اہم ثقافتی اہمیت بھی ہے جسے طویل عرصے سے زیورات کی صورت میں دولت، سلامتی اور حیثیت کی علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

ایک ماہرِ اقتصادیات جو آل پاکستان جیمز اینڈ جیولرز صرافہ ایسوسی ایشن (اے پی جی جے ایس اے) کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے ہیں، نے حالیہ اتار چڑھاؤ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’سونے کی قیمتیں عالمی عوامل جیسے امریکی شرح سود، مرکزی بینک کی خریداری اور ایکسچینج ٹریڈڈ فنڈز (ای ٹی ایفز) سے متاثر ہوتی ہیں۔

’مقامی عوامل بھی اس میں کردار ادا کرتے ہیں جن میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں تبدیلی، درآمدی پابندی جیسے حکومتی قوانین، اسمگلنگ، شادیوں کے موسم اور تہواروں کے دوران زیادہ مانگ اور زیورات کی مارکیٹ میں تبدیلی کے رجحانات شامل ہیں‘۔

—ورلڈ گولڈ کونسل
—ورلڈ گولڈ کونسل

سونے کی مارکیٹ سے منسلک ای ٹی ایفز سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حقیقی سرمایہ کاری میں سونے کی کتنی زیادہ قدر ہے۔ سرمایہ کاروں کی دلچسپی عالمی سطح پر سونے کی قیمتوں کو متاثر کرتی ہے اور یہی لندن اور دبئی میں بینچ مارک قیمتوں کے ساتھ ساتھ، موجودہ روپے-ڈالر کی شرح تبادلہ کے مطابق پاکستان میں سونے کی قیمتوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔

اے پی جی جے ایس اے کے رہنما نے کہا، ’بین الاقوامی مالیاتی پالیسی میں تبدیلی، جغرافیائی سیاسی تناؤ اور ملکی کمزوریوں جیسے غیر مستحکم زر مبادلہ، غیر رسمی تجارت اور سیلاب سے پیدا ہونے والے مسائل کے پیش نظر، مستقبل میں سونے کی قیمتوں میں ٹھہراؤ کے بجائے اتار چڑھاؤ کے امکانات زیادہ ہیں‘۔

حکومت کی جانب سے مئی میں سونے کی درآمد و برآمد پر پابندی عائد کرنے اور اکتوبر میں اس پابندی کو ختم کرنے کے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے ایک افسر نے ذاتی طور پر ہمیں بتایا کہ یہ ابتدائی اقدام بھارت کے ساتھ جنگ کے آغاز کے بعد کیا گیا تھا جس کا مقصد دبئی کے راستے بھارت کو سونا اور دیگر قیمتی دھاتوں کی فروخت کے بہاؤ کو روکنا تھا جبکہ غیر ضروری مہنگی اشیا کی خریداری کو محدود کرکے زرمبادلہ کی بچت بھی مقصود تھی۔

البتہ گزشتہ ماہ جیولرز کے دباؤ اور سرمایہ کاروں کی شدید طلب کے باعث یہ پابندی ہٹا دی گئی جس کی وجہ سے ملک میں سونے کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔

کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افراطِ زر میں اضافے اور کشیدہ سرحدی سلامتی کی صورت حال نے لوگوں کو سونے کی جانب راغب کیا ہے جہاں وہ اسے دولت ذخیرہ کرنے کے لیے ایک قابلِ اعتماد ذریعے کے طور پر دیکھنے لگے ہیں۔ ان کا تجزیہ یہ بھی کہتا ہےکہ سونے جیسے وجودی اثاثوں میں بڑھتی ہوئی دلچسپی اس بات کی عکاس ہے کہ شہری دیگر سرمایہ کاری کے مواقع کے ساتھ منسلک خطرات کو اب پہلے سے زیادہ محسوس کرنے لگے ہیں۔

چونکہ سرکاری اعداد و شمار باقاعدگی سے شائع نہیں ہوتے ہیں، اس لیے مختلف ذرائع جیسے کسٹمز، اسٹیٹ بینک اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے اعداد کو یکجا کرنا مشکل ہے۔ ری سائیکل کیے جانے والے سونے، غیر رسمی یا غیر قانونی تجارت اور ملک میں کان سے ہونے والی پیداوار کے بارے میں بھی تفصیلات موجود نہیں ہیں۔ اس صورت حال میں ورلڈ گولڈ کونسل کا ڈیٹا چاہے حقیقی اعداد و شمار سے کم کیوں نہ ہو، پھر بھی ایک بنیادی حوالے کے طور پر کام کرتا ہے۔

ورلڈ گولڈ کونسل کے اعداد و شمار کے مطابق، حالیہ برسوں میں پاکستان میں سونے کی طلب میں 60 سے 90 ٹن کے درمیان اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آیا ہے۔ مالی سال 2017ء کے دوران طلب مبینہ طور پر عروج پر تھی جوکہ زیورات کی تیاری اور سرمایہ کاری کی سرگرمیوں میں اضافے کی وجہ سے تھی لیکن کورونا وبا کے باعث اس شرح میں تیزی سے کمی واقع ہوئی۔

اگرچہ سونے کے بارز اور سکوں میں سرمایہ کاری کی طلب زیورات کے مقابلے میں بڑھ چکی ہے لیکن مجموعی طور پر صارفین میں سونے کی خریداری کا رجحان سُست ہوچکا ہے جس کی وجہ ریکارڈ بلند قیمتیں، روپے کی قدر میں کمی اور درآمدی پابندیاں ہیں۔

سرمایہ کاری کے لیے زیورات سے زیادہ سونے کی بارز اور سکوں کی طلب ہے
سرمایہ کاری کے لیے زیورات سے زیادہ سونے کی بارز اور سکوں کی طلب ہے

ورلڈ گولڈ کونسل کے اعداد و شمار کے مطابق، زیورات پاکستان کی کُل سونے کی طلب کا تقریباً 24 تا 39 فیصد بنتے ہیں جبکہ 2010ء میں سرمایہ کاری کی طلب تقریباً 11 فیصد سے بڑھ کر 2024ء تک تقریباً 26 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ یہ دونوں شعبے مل کر سونے کی کُل کھپت کا تقریباً نصف بنتے ہیں جبکہ بقیہ حصہ صنعتی اور دیگر استعمال پر مشتمل ہے۔

یہ زیورات بنانے سے سرمایہ کاری کی جانب بتدریج منتقلی کے رجحان کی عکاسی کرتا ہے کیونکہ سونا بڑھتی ہوئی مہنگائی اور روپے کی قدر میں کمی کے خلاف ایک محفوظ سرمایہ کاری کے طور پر کام کر رہا ہے۔

اس سلسلے میں حکومت کی اقتصادی ٹیم کے اراکین سے تبصرے کے لیے رابطہ کیا گیا لیکن اس تحریر کی اشاعت تک ان کے جوابات موصول نہیں ہوئے تھے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ایک ترجمان نے کہا کہ استفسارات متعلقہ محکمے کو بھیج دیے گئے ہیں، تاہم ہمیں معلومات بروقت موصول نہیں ہوئیں۔

چیف شماریات ڈاکٹر نعیم الظفر نے کہا ہے کہ سونے کی تجارت سے متعلق کسٹم اعداد و شمار اور گھریلو آمدنی و اخراجات کے سروے سے گھریلو سونے کی ملکیت کے تخمینے فراہم کیے جائیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ یہ اعداد پوری طرح درست نہیں ہو سکتے ہیں کیونکہ لوگ اکثر اپنے اثاثوں کو کم ہی رپورٹ کرتے ہیں۔ تاہم یہ متعلقہ ڈیٹا بھی وقت پر شیئر نہیں کیا گیا۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

افشاں صبوحی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 14 نومبر 2025
کارٹون : 13 نومبر 2025