بھارت میں ووٹر لسٹوں میں بڑے پیمانے پر متنازع نظرثانی کا عمل شروع

شائع November 4, 2025

بھارت نے اپنے ووٹر لسٹوں میں نظرثانی کا متنازع عمل شروع کردیا ہے جس کے بارے میں سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں ووٹ کے حق سے محرومی کے خطرات کو بڑھا سکتا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق 3 ماہ پر مشتمل ووٹر رجسٹریشن کی اس مہم کو اسپیشل انٹینسو ریویژن (ایس آئی آر) کا نام دیا گیا ہے جس کا آغاز 12 ریاستوں اور علاقوں میں کیا گیا ہے، جن میں سے کئی میں آئندہ سال مقامی انتخابات متوقع ہیں۔

لاکھوں الیکشن افسران اور تقریباً 5 لاکھ رضاکار گھر گھر جا کر شہریوں کو ووٹر اندراج کے فارم پُر کرنے میں مدد کریں گے۔

اس حوالے سے الیکشن کمیشن آف انڈیا (ای سی آئی) کے سربراہ گیانیش کمار نے اس عمل کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ افسران ووٹر کو فارم بھرنے میں مدد کریں گے، اسے جمع کریں گے اور پھر متعلقہ دفتر میں جمع کرائیں گے۔

اس سے قبل، رواں سال 13 کروڑ سے زائد آبادی رکھنے والی مشرقی ریاست بہار میں ریاستی انتخابات سے پہلے اسی طرح کا عمل کیا گیا تھا جو 6 نومبر سے شروع ہو رہے ہیں۔

اس عمل کے نتیجے میں تقریباً 65 لاکھ ووٹرز کے نام فہرست سے خارج کیے گئے، جس کے بارے میں الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ یہ غیر قانونی غیر ملکی تارکینِ وطن کے اندراج کو روکنے کے لیے ضروری تھا۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) طویل عرصے سے دعویٰ کرتی آئی ہے کہ بنگلہ دیش سے آنے والے غیر قانونی مسلمان تارکینِ وطن نے دھوکے سے ووٹر لسٹوں میں اپنے نام شامل کر رکھے ہیں۔

تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ سخت دستاویزی تقاضے بڑی تعداد میں حقیقی بھارتی شہریوں کو غلطی سے ووٹر لسٹوں سے خارج کر سکتے ہیں۔

کارکنوں نے ایسے کئی واقعات رپورٹ کیے ہیں جن میں زندہ افراد کو مردہ قرار دیا گیا یا پورے خاندانوں کے نام ووٹر لسٹ کے مسودے سے خارج کر دیے گئے۔

اگست میں بھارت کی سپریم کورٹ نے کچھ خدشات دور کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ بایومیٹرک سے منسلک آدھار کارڈ اس عمل کے لیے درست شناختی دستاویز کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے۔

نئی ایس آئی آر مہم کے تحت بھارت کی اہم ریاستیں شامل ہیں، جن میں اتر پردیش (19کروڑ 90 لاکھ آبادی)، مغربی بنگال (9 کروڑ 10 لاکھ)، تمل ناڈو (7 کروڑ 20 لاکھ)، اور کیرالا (3 کروڑ 30 لاکھ) شامل ہیں، جیسا کہ 2011 کی مردم شماری میں بتایا گیا ہے۔

متعدد انسانی حقوق کی تنظیموں اور اپوزیشن جماعتوں نے اس اقدام کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی ہے۔

تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن، جن کی جماعت نے پیر کے روز سپریم کورٹ میں اس عمل کے خلاف درخواست دائر کی، نے اسے اصلی ووٹروں کے نام حذف کرنے کی چال قرار دیا۔

انہوں نے اتوار کو اپوزیشن جماعتوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ووٹ دینا جمہوریت کا جسم اور روح ہے اور یہ حق اس وقت خطرے میں ہے۔

خیال رہے کہ حتمی ووٹر لسٹ 7 فروری 2026 کو جاری کیے جانے کی توقع ہے۔

کارٹون

کارٹون : 14 نومبر 2025
کارٹون : 13 نومبر 2025