• KHI: Clear 25.4°C
  • LHR: Partly Cloudy 18.3°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.1°C
  • KHI: Clear 25.4°C
  • LHR: Partly Cloudy 18.3°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.1°C

پاکستان میں شہری آبادی کی حقیقی شرح تقریباً 88 فیصد ہونے کا انکشاف

شائع November 5, 2025
پاکستان میں آخری بار 1972 میں شہری علاقوں کی سرکاری درجہ بندی زمینی حقائق کے مطابق کی گئی تھی۔ —فائل فوٹو: رائٹرز
پاکستان میں آخری بار 1972 میں شہری علاقوں کی سرکاری درجہ بندی زمینی حقائق کے مطابق کی گئی تھی۔ —فائل فوٹو: رائٹرز

عالمی بینک کے ایک پالیسی ریسرچ ورکنگ پیپر کے تجزیے سے انکشاف ہوا ہے کہ سیٹلائٹ امیجری اور ڈیگری آف اربنائزیشن (ڈی او یو) کے طریقہ کار کے مطابق پاکستان میں شہری آبادی کی حقیقی شرح تقریباً 88 فیصد ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ورکنگ پیپر کا عنوان ہے ’ایک گاؤں کب قصبہ بنتا ہے؟: سیٹلائٹ ڈیٹا کی مدد سے پاکستان میں شہرکاری (اربنائزیشن) کا ازسرِ نو جائزہ‘، رپورٹ کے مطابق پاکستان میں شہری آبادی کے سرکاری اعداد و شمار اور حقیقی صورتحال کے درمیان نمایاں فرق کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں شہری علاقوں کی درجہ بندی انتظامی سرحدوں کی بنیاد پر کی جاتی ہے، جو دراصل آبادی کی کثافت یا بستیوں کے پھیلاؤ کو درست طور پر ظاہر نہیں کرتیں۔

تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی شہری آبادی سرکاری طور پر بتائی گئی تعداد سے تقریباً دو گنا ہے، کیوں کہ سرکاری تعریف صرف بڑے شہروں تک محدود ہے۔

ڈی او یو کے مطابق، پاکستان کی 88 فیصد آبادی ان علاقوں میں رہتی ہے، جو شہری خصوصیات رکھتے ہیں، جن میں سے 46 فیصد بلند آبادی والے بڑے شہروں میں اور تقریباً 42 فیصد درمیانی درجے کے شہری علاقوں میں رہتی ہے۔

یہ اعداد و شمار سرکاری طور پر بتائی گئی 39 فیصد شہری آبادی سے بہت مختلف ہیں، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سیاسی طور پر متعین کردہ اور تکنیکی لحاظ سے ماپی گئی درجہ بندیوں میں ایک بڑا فرق موجود ہے۔

تحقیق کے مطابق، پاکستان میں حالیہ شہری توسیع کے اصل محرک میگا سٹیز کے بجائے ثانوی شہر اور مضافاتی (پیری اربن) علاقے ہیں، تاہم ان علاقوں کو سرکاری اعداد و شمار میں زیادہ تر نظرانداز کر دیا جاتا ہے، اس انتظامی اور فنکشنل فرق کے مالیاتی اور منصوبہ بندی کے حوالے سے سنگین نتائج ہیں۔

غلط درجہ بندی کی وجہ سے جائیداد ٹیکس کی آمدن میں کمی ہوتی ہے، اور عوامی خدمات کی منصوبہ بندی اور فراہمی متاثر ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ، یہ غلط درجہ بندی سماجی و معاشی اشارے کو بگاڑ دیتی ہے، جس سے شہری و دیہی تفاوت کی اصل حد چھپ جاتی ہے اور مؤثر، شواہد پر مبنی پالیسی سازی مشکل ہو جاتی ہے۔

یہ تحقیق ورلڈ بینک کے دفتر برائے غربت و مساوات نے تیار کی ہے۔

مطالعے کے مطابق پاکستان میں آخری بار 1972 میں شہری علاقوں کی سرکاری درجہ بندی زمینی حقائق کے مطابق کی گئی تھی، اس سے پہلے شہری درجہ بندی آبادی، انفرااسٹرکچر اور عوامی سہولیات جیسے معروضی عوامل کی بنیاد پر کی جاتی تھی، لیکن 1972 کے بعد یہ ذمہ داری صوبائی اور بلدیاتی کمیٹیوں کو منتقل کر دی گئی، جن پر آبادی کی کثافت یا معروضی معیار کو مدنظر رکھنے کی کوئی لازمی پابندی نہیں، اور نہ ہی انہیں شہری سرحدوں کا ازسرِ نو تعین کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ اگرچہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی 39 فیصد آبادی شہری ہے، لیکن جب آبادی کی کثافت اور ارتکاز کو مدنظر رکھا جائے تو یہ شرح 88 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔

سرکاری تعریف صرف بڑے شہری مراکز تک محدود ہے، اور ان مضافاتی علاقوں کو نظرانداز کرتی ہے جو اب آبادی کے تقریباً نصف حصے کے مسکن بن چکے ہیں۔

مزید برآں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں شہری توسیع کو صرف میگا سٹیز جیسے لاہور اور کراچی کے پھیلاؤ سے جوڑنا درست نہیں، کیوں کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے شہری مراکز بھی شہری آبادی میں اضافے کا بڑا حصہ رکھتے ہیں۔

یہ تحقیق ڈیگری آف اربنائزیشن (ڈی او یو) کے طریقے کا استعمال کرتی ہے، جو سیٹلائٹ ڈیٹا کی مدد سے آبادی کی کثافت ناپتا ہے، اس طرح یہ انتظامی سرحدوں سے ہٹ کر شہری آبادی کا زیادہ درست اور عالمی طور پر موازنہ کیا جا سکنے والا اندازہ فراہم کرتا ہے۔

تمام صوبوں میں سرکاری اور ڈی او یو درجہ بندیوں میں واضح فرق موجود ہے۔

مثلاً، اسلام آباد میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شہری آبادی 47 فیصد ہے، جب کہ ڈی او یو کے مطابق یہ 90 فیصد ہے۔

بلوچستان، پنجاب اور سندھ میں دونوں تخمینے کچھ حد تک قریب ہیں۔

خیبر پختونخوا میں ڈی او یو شہری آبادی کو سرکاری 15 فیصد کے مقابلے میں تقریباً 3 گنا زیادہ ظاہر کرتا ہے۔

اسلام آباد کو زیادہ تر گنجان شہری علاقہ قرار دیا گیا ہے، جب کہ دیگر صوبوں میں شہری مضافات اور نیم شہری (پیری اربن) علاقوں میں تیزی سے ترقی ہو رہی ہے۔

رپورٹ کے اختتام پر بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 2 دہائیوں میں پاکستان کا شہری منظرنامہ (اربن لینڈاسکیپ) نمایاں طور پر تبدیل ہو چکا ہے۔

سن 2000 کے بعد سے دیہی آبادی کا ایک بڑا حصہ زراعت سے دور ہو کر دیگر شعبوں میں منتقل ہو رہا ہے، جس سے پہلے دیہی کہلانے والی بستیاں اب نئے اور متحرک شہری مراکز میں بدل چکی ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 15 دسمبر 2025
کارٹون : 14 دسمبر 2025