اداریہ: ’زہران ممدانی کو ابھی بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا ہوگا‘
نیویارک سٹی کے میئر کی دوڑ میں زہران ممدانی نے اپنی جیت کے ساتھ جو کچھ حاصل کیا ہے، اسے امریکی قانون ساز برنی سینڈرز نے اپنے الفاظ میں، ’جدید امریکی تاریخ کے عظیم سیاسی اپ سیٹ میں سے ایک‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔
زہران ممدانی جو مسلم اور جنوبی ایشیائی نسل کے میئر بنے ہیں، انہوں نے دنیا کے سب سے بڑے اور متنوع شہروں میں سے ایک کے لوگوں کو اپنی قیادت پر اعتماد پر آمادہ کرنے کے لیے انتھک محنت کی ہے۔
ان کی جیت نے دنیا کی ترقی پسند قوتوں میں ایک ایسے وقت میں امیدیں پیدا کی ہیں جب عالمی سطح پر انتہائی دائیں بازو کا زور عروج پر ہے۔ زہران ممدانی صحیح معنوں میں دنیا کے شہری ہیں۔ ان کے والدین کی جڑیں برصغیر میں ہیں، وہ خود یوگنڈا میں پیدا ہوئے جس کے بعد وہ امریکی شہری بنے جبکہ زہران کی اہلیہ کا تعلق شام سے ہے۔
شہر میں اندرونی سطح پر انہوں نے کام کرنے والے طبقے سے تعلق رکھنے والے مردوں اور خواتین، تارکین وطن کمیونٹیز اور نوجوان ووٹرز کو جو پیش کش کی ہیں، وہی ان کی شاندار فتح میں مددگار ثابت ہوئیں۔ اپنے طور پر سوشل ڈیموکریٹ کی مہم میں انہوں نے اعلیٰ اشرافیہ پر ٹیکس بڑھا کر زندگی کے بحران کا مقابلہ کرنے کا وعدہ کیا۔ خارجہ پالیسی کے محاذ پر وہ فلسطین کے سخت حامی ہیں۔
جب ان کی جیت کا جوش ختم ہوجائے گا اور زہران ممدانی بطور میئر اپنا کام شروع کریں گے تو انہیں بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ترقی پسند خیالات اور اپنے مذہب اور نسلی پس منظر پر فخر کرنے کی وجہ سے بھی کچھ طاقتور لوگ انہیں ناپسند کرتے ہیں۔ ان کے سب سے بڑے ناقدین میں سے ایک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جنہوں نے طنزیہ انداز میں انہیں ’کمیونسٹ‘ کہا اور یہاں تک کہ زہران ممدانی کے میئر بننے کی صورت میں نیو یارک شہر کے لیے وفاقی فنڈنگ روکنے کی دھمکی بھی دی۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ نے زہران کی توثیق میں سست روی کا مظاہرہ کیا جبکہ نیویارک کے نئے میئر کو انتخابی مہم کے دوران مذہب، نسلی پس منظر حتیٰ کہ کھانے پینے کی عادات کی بنیاد پر بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان پر طاقتور صہیونی لابی کے خلاف مزاحمت کرنے پر یہود مخالف ہونے کا بھی الزام لگایا گیا۔
یہ تمام منفی قوتیں زہران ممدانی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتی رہیں گی۔ اس کے باوجود ان کی جیت اور لندن کے میئر کے طور پر صادق خان کی کامیابی، مسلمانوں اور تارکین وطن کے خلاف انتہائی دائیں بازو کے ناروا سلوک کی زبردست مذمت ہے۔
ان دونوں کے سیاسی سفر ظاہر کرتے ہیں کہ مغرب میں بہت سے نوجوان ووٹرز ایسے امیدواروں کی حمایت کرتے ہیں جو سماجی اور اقتصادی انصاف کے پلیٹ فارم کی حمایت کرتے ہیں اور انہیں امیدواروں کے نسلی یا اعترافی پس منظر کی زیادہ پروا نہیں۔
نسل پرست اور اسلاموفوبس اب بھی ایک دوسرے کے خلاف خوف پھیلا رہے ہیں لیکن زہران ممدانی کی جیت نے نئی امیدیں پیدا کی ہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔












لائیو ٹی وی