• KHI: Clear 24.5°C
  • LHR: Partly Cloudy 16.8°C
  • ISB: Cloudy 14.4°C
  • KHI: Clear 24.5°C
  • LHR: Partly Cloudy 16.8°C
  • ISB: Cloudy 14.4°C

امریکا اور ایران کے ممکنہ مذاکرات کے اشارے، جوہری پروگرام پر اختلافات برقرار

شائع November 8, 2025
ماضی کے مذاکرات کے میزبان عمان نے دونوں ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ بات چیت دوبارہ شروع کریں — فائل فوٹو: رائٹرز
ماضی کے مذاکرات کے میزبان عمان نے دونوں ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ بات چیت دوبارہ شروع کریں — فائل فوٹو: رائٹرز

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایران نے بھاری امریکی پابندیاں ختم کرنے کی درخواست کی ہے، اور وہ اس پر بات چیت کے لیے تیار ہیں، اس بیان کے جواب میں ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے کہا کہ ایران امن چاہتا ہے، مگر اپنے دفاعی پروگرامز کو ترک کرنے پر کسی دباؤ کو قبول نہیں کرے گا۔

ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق یہ بیانات دونوں ممالک کے درمیان حالیہ فوجی تصادم کے بعد ایک ممکنہ، مگر انتہائی نازک، سفارتی راستے کی نشاندہی کرتے ہیں، حالیہ تصادم نے پچھلی جوہری مذاکراتی کوششوں کو متاثر کیا تھا۔

ٹرمپ نے وسط ایشیائی رہنماؤں کے ساتھ عشائیے کے دوران کہا کہ صاف طور پر، ایران پوچھ رہا ہے کہ کیا پابندیاں ہٹائی جا سکتی ہیں، ایران پر بہت سخت امریکی پابندیاں ہیں، اور اس سے صورتحال ان کے لیے بہت مشکل ہو گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں اس پر غور کرنے کے لیے تیار ہوں، دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے، لیکن میں بات چیت کے لیے کھلا ہوں۔

ٹرمپ کے یہ ریمارکس ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب تہران کئی سالوں سے عالمی پابندیوں کے دباؤ میں ہے، خاص طور پر 2018 میں جب امریکا نے یکطرفہ طور پر بین الاقوامی جوہری معاہدے سے دستبرداری اختیار کی اور دوبارہ سخت معاشی اقدامات عائد کر دیے تھے۔

تہران میں صدر پزشکیان نے جمعہ کے روز ملکی سرکاری میڈیا کے مطابق ایران کے مؤقف کا واضح اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک مکالمے کے لیے تیار ہے، لیکن اپنے بنیادی حقوق (جوہری پروگرام اور دفاعی میزائل نظام) پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم بین الاقوامی فریم ورک کے اندر مذاکرات کے لیے تیار ہیں، لیکن اگر وہ کہیں کہ تم (جوہری) سائنس نہیں رکھ سکتے، یا اپنے دفاع کے لیے (میزائل) کا حق نہیں رکھتے، ورنہ ہم تمہیں بمباری سے نشانہ بنائیں گے، تو یہ ناقابلِ قبول ہے‘۔

ایرانی صدر نے کہا کہ ہم دنیا میں امن و سلامتی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، لیکن ذلت برداشت نہیں کریں گے، یہ قابلِ قبول نہیں کہ وہ ہم پر اپنی مرضی مسلط کریں اور ہم صرف ان کی خدمت کریں۔

یہ سفارتی اشارے ایک حالیہ اور نازک جنگی پس منظر میں سامنے آئے ہیں۔

جون کے وسط میں، اسرائیل نے ایران پر بمباری شروع کر دی تھی، جس کے نتیجے میں 12 روزہ جنگ چھڑ گئی تھی، اس دوران امریکا نے بھی ایرانی جوہری تنصیبات پر حملوں میں حصہ لیا تھا۔

یہ جنگ، جس میں ایران نے میزائلوں اور ڈرون حملوں سے جوابی کارروائی کی، اپریل میں شروع ہونے والے تہران-واشنگٹن جوہری مذاکرات کو پٹری سے اتار دیا تھا۔

جنوری میں دوبارہ اقتدار میں آنے والے ریپبلکن صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ان حملوں نے ایران کے جوہری پروگرام کو تباہ کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایران کبھی مشرقِ وسطیٰ کا غنڈہ تھا، لیکن اب وہ جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت سے محروم ہے۔

تاہم، حملوں سے ہونے والے نقصان کی مکمل تفصیلات اب تک سامنے نہیں آئی ہیں۔

امریکا سمیت مغربی ممالک طویل عرصے سے ایران پر ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کا الزام لگاتے آئے ہیں، لیکن ایران ہمیشہ یہ موقف اختیار کرتا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن توانائی کے مقاصد کے لیے ہے۔

اقتصادی دباؤ میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب اقوام متحدہ نے ستمبر میں ’اسنیپ بیک‘ طریقہ کار کے تحت ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دیں جو برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی جانب سے عمل میں لائی گئی کارروائی کے بعد لگائی گئیں۔

یہ اقدامات ایران کے جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگرامز سے منسلک تمام معاملات پر پابندی لگاتے ہیں۔

صدر پزشکیان نے اس رویے کو دوہرا معیار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’وہ اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرتے ہیں اور ہمیں کہتے ہیں کہ اپنے دفاع کے لیے میزائل نہ رکھو، اور پھر جب چاہیں ہم پر بمباری کر دیتے ہیں’۔

ایران بارہا واضح کر چکا ہے کہ وہ اپنے دفاعی پروگرام، بشمول میزائل صلاحیت، پر کسی قسم کے مذاکرات کو قبول نہیں کرے گا، کیونکہ یہ قومی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے۔

اسرائیل، ایران کو اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، لیکن ایران کا کہنا ہے کہ اس کے 2000 کلومیٹر تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل کسی بھی خطرناک صورتحال میں روک تھام اور جوابی دفاع کے لیے ضروری ہیں، اور وہ جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہا۔

عمان، جو ماضی میں امریکا اور ایران کے درمیان کئی مذاکراتی دوروں کی میزبانی کر چکا ہے، نے دونوں ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ بات چیت دوبارہ شروع کریں۔

ان مذاکرات کا مقصد ایک نئے معاہدے تک پہنچنا تھا، جس کے تحت ایران اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرتا اور پابندیوں میں نرمی حاصل کرتا۔

جنگ سے قبل تہران اور واشنگٹن کے درمیان بات چیت کے 5 ادوار ہوچکے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 14 دسمبر 2025
کارٹون : 13 دسمبر 2025