11ویں این ایف سی ایوارڈ کا ابتدائی اجلاس پھر ملتوی
قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی)، جسے تین ماہ پہلے تشکیل دیا گیا تھا، کا ابتدائی اجلاس اب بھی ہوتا نظر نہیں آرہا، 18 نومبر کی مجوزہ تاریخ بھی مؤخر کردی گئی ہے، اور اس دوران موجودہ مالی سال کے لیے معاشی ترقی کے ہدف میں 0.7 فیصد تک کمی کرتے ہوئے اسے 3.5 فیصد کر دیا گیا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق باخبر ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف چاہتے ہیں کہ این ایف سی کے تکنیکی اور آئینی فورم پر مالیاتی امور کی باضابطہ بحث شروع کرنے سے پہلے مرکز اور صوبوں کے اہم سیاسی معاملات پر بات چیت کا ماحول بن جائے۔
11واں این ایف سی ایوارڈ 22 اگست کو تشکیل پایا تھا تاکہ مرکز اور صوبوں کے درمیان قابل تقسیم وفاقی وسائل کی نئی تقسیم طے کی جا سکے۔
پہلا اجلاس پہلے 27 اگست کو بلایا گیا، پھر 29 اگست تک مؤخر کیا گیا، بعد میں سندھ حکومت کی درخواست پر سیلاب کے باعث اسے دوبارہ ملتوی کرنا پڑا۔
یوں 2009 میں جاری ہونے والا ساتواں این ایف سی ایوارڈ آج تک برقرار ہے حالانکہ اس کی آئینی مدت صرف 5 سال تھی۔
اسی وجہ سے وزارتِ خزانہ، مسلح افواج اور آئی ایم ایف سمیت کئی حلقے مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں کہ ساتویں این ایف سی کے تحت صوبوں کو ملنے والے بڑے حصے پر دوبارہ نظرثانی کی جائے، مگر یہ مطالبات اب تک پورے نہیں ہوئے۔
آئین کے مطابق کسی بھی صوبے کا حصہ کم نہیں کیا جا سکتا اور این ایف سی ایوارڈ، مرکز اور چاروں صوبوں کے اتفاقِ رائے سے ہی طے ہوتا ہے۔
ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو قابل تقسیم ٹیکسوں میں مجموعی طور پر 57.5 فیصد حصہ ملتا ہے جن میں انکم ٹیکس، ویلتھ ٹیکس، کیپیٹل ویلیو ٹیکس، جنرل سیلز ٹیکس، کسٹمز ڈیوٹیز اور فیڈرل ایکسائز شامل ہیں۔
صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم آبادی، غربت، ریونیو کلیکشن اور کم آبادی والے علاقوں کے لیے اضافی وزن کی بنیاد پر ہوتی ہے، اس کے تحت پنجاب کو 51.74 فیصد، سندھ کو 24.55 فیصد، خیبر پختونخوا کو 14.62 فیصد اور بلوچستان کو 9.09 فیصد حصہ ملتا ہے۔
سیاسی سودے بازی
ذرائع کے مطابق صوبوں کو اس ماہ کے آغاز میں 18 نومبر کی تاریخ سے غیر رسمی طور پر آگاہ کیا گیا تھا مگر بعد میں وزیراعظم آفس نے اجلاس مؤخر کرنے اور نئی تاریخ فی الحال نہ بتانے کی ہدایت کی، وزیراعظم کا این ایف سی کے معاملات میں براہِ راست کوئی کردار نہیں ہوتا کیونکہ یہ کمیشن صدر بناتے ہیں۔
این ایف سی کی شرائط کا ازسرنو تعین پہلے مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کا حصہ تھا، جس میں مرکز صوبوں کا حصہ کم کرنا اور تعلیم، آبادی وغیرہ جیسے کچھ محکمے واپس لینا چاہتا تھا، مگر مسلح افواج اور عدلیہ سے متعلق ترامیم پر پیپلز پارٹی کے ساتھ سیاسی سمجھوتے کے بعد وفاق نے یہ مطالبات وقتی طور پر چھوڑ دیے۔
اس کے باوجود وزیراعظم، پیپلز پارٹی کے ساتھ این ایف سی پر مکالمہ جاری رکھنے کا اشارہ دے چکے ہیں۔
مرکز نے این ایف سی کے دائرے سے باہر پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) کو ایک بڑی آمدنی کے طور پر پہلے ہی اپنا لیا ہے، اور اس کے علاوہ صوبوں سے تقریباً 15 کھرب روپے کی رقم بھی نقد سرپلس کی صورت میں حاصل کی ہے۔
این ایف سی کے علاوہ آمدنی کے ذرائع
پی ڈی ایل اور صوبائی نقد سرپلس کا مجموعی فائدہ اس مالی سال میں تقریباً 30 کھرب روپے بنتا ہے، جو جی ڈی پی کے 2 فیصد کے برابر ہے۔
رواں اور گزشتہ مالی سال کے دوران بلند ترین شرح سود کی وجہ سے مرکز نے اسٹیٹ بینک کے منافع میں سے بھی تقریباً 2.5 ارب روپے سالانہ حاصل کیے ہیں۔
وفاقی بیورو آف ریونیو کے ٹیکس اہداف میں 275 ارب روپے کی کمی پہلے ہی آچکی ہے اور معاشی سست رفتاری کے باعث یہ فرق مزید بڑھ سکتا ہے، جی ڈی پی کی کم شرحِ نمو کا براہِ راست اثر ایف بی آر کی ٹیکس وصولی اور پھر این ایف سی کے تحت صوبوں کے حصے پر پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں صوبوں کے مرکز کو نقد سرپلس دینے کے وعدے بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
اگرچہ کم معاشی ترقی کا کچھ ازالہ مہنگائی میں اضافے سے ہونے والی سیلز ٹیکس آمدن سے ہو سکتا ہے، لیکن یہ اثر مکمل نہیں ہوتا۔
سیلاب کی تباہ کاریاں
وزارتِ خزانہ نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ منصوبہ بندی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 30 ستمبر تک موصول ہونے والے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیلاب نے آئندہ مالی سال 2026 کی جی ڈی پی شرح نمو میں 0.3 سے 0.7 فیصد کمی کر دی ہے، جس سے ہدف 4.2 فیصد سے گھٹ کر 3.5 سے 3.9 فیصد کے درمیان آگیا ہے۔
اقتصادی نقصانات کا اندازہ 822 ارب روپے، یعنی تقریباً 2.9 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔
وزارتِ خزانہ کے مطابق سیلاب نے مہنگائی میں اضافہ کیا ہے، مالی سال 2026 کے ابتدائی 2 ماہ میں مہنگائی 4.1 اور 3 فیصد رہی، لیکن ستمبر میں خوراک کی قیمتیں بڑھنے سے یہ 5.6 فیصد تک پہنچ گئی۔
زرعی شعبے کو 430 ارب روپے کے نقصان کا سامنا ہوا ہے، جن میں سے 422.7 ارب روپے فصلوں کی تباہی کی وجہ سے ہیں، اسی طرح 307 ارب روپے کے انفرااسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچا ہے، فصلوں کے نقصان کے باعث زرعی ترقی کا ہدف 4.5 فیصد کے مقابلے میں اب 3 سے 3.8 فیصد رہ گیا ہے۔
وزارت نے خبردار کیا کہ چاول کی برآمدات متاثر ہو سکتی ہیں جبکہ روئی، گندم، دالوں اور تعمیراتی سامان کی درآمدات بڑھ سکتی ہیں، جس سے تجارتی خسارہ اور زرمبادلہ کے دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے، تاہم بیرون ملک پاکستانیوں کی بلند تر ترسیلاتِ زر اس خسارے کو کچھ حد تک کم کر سکتی ہیں۔
مزید یہ کہ خوراک اور بنیادی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ، سپلائی چین میں رکاوٹوں اور پیداواری اخراجات میں اضافے کے باعث مہنگائی کا خطرہ برقرار رہے گا۔












لائیو ٹی وی