ہری پور: ضمنی الیکشن میں عمر ایوب کی خالی نشست پر اہلیہ کے تاریخ رقم کرنے کا امکان
جوں جوں این اے 18 ہری پور کے ضمنی الیکشن کے لیے پولنگ کا دن (23 نومبر) قریب آ رہا ہے، مقابلے میں شامل امیدواروں نے ووٹرز کو قائل کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امیدواروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کارنر میٹنگز، انفرادی ملاقاتیں اور گھر گھر جا کر مہم چلانے کی سرگرمیاں ضلع میں صبح سے شام تک بغیر رکے جاری رہتی ہیں۔
مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار، پاکستان پیپلز پارٹی، ہزارہ قومی محاذ، پاکستان نظریاتی پارٹی اور 4 آزاد امیدوار (جن میں 2 خواتین بھی شامل ہیں) ہری پور کی واحد قومی اسمبلی کی نشست پر قسمت آزما رہے ہیں، یہ نشست سابق اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان کی نااہلی کے بعد خالی ہوئی تھی۔
تاہم مبصرین کے مطابق، یہ بڑی اور دیہی اکثریتی حلقہ بندی اس وقت ایک دلچسپ مقابلے کا منظر پیش کر رہی ہے، جہاں پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار شہرناز عمر ایوب خان اور مسلم لیگ (ن) کے امیدوار بابر نواز خان آمنے سامنے ہیں۔
پی ٹی آئی نے پہلے ہی چمبہ میں ایک جلسے کا اعلان کر رکھا ہے جو ضلع ایبٹ آباد کی سرحد پر واقع ہری پور کا گاؤں ہے، وزیراعلیٰ سہیل آفریدی وہاں پارٹی کارکنوں سے خطاب کریں گے، پارٹی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنماؤں کی ہری پور آمد بھی متوقع ہے۔
پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ امیدوار شہرناز عمر ایوب پہلی بار الیکشن لڑ رہی ہیں، وہ اپنے شوہر کی جگہ امیدوار بنی ہیں اور ان کی انتخابی مہم خود ان کے شوہر چلا رہے ہیں، حالانکہ وہ ’سزا کے بعد‘ پنجاب پولیس کو مطلوب ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے امیدوار بابر نواز خان جو 2015 کا ضمنی الیکشن جیت کر 2018 تک ایم این اے رہ چکے ہیں، وہ بھی کافی متحرک ہیں، انہیں پارٹی کے اہم رہنماؤں کیپٹن (ر) صفدر اعوان، پیر صابر شاہ، سردار مشتاق خان، ڈاکٹر راجا عامر زمان، مرتضیٰ جاوید عباسی، ڈاکٹر شائستہ جدون اور صوبائی ارکان شازیہ جدون و آمنہ سردار کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
کیپٹن (ر) صفدر نے اپنی اہلیہ کی پنجاب حکومت کی طرف سے 100 بستروں کا ہسپتال اور ایک اسٹیڈیم گاؤں پہدیان میں بنانے کا اعلان کیا، انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے ان سے اور بابر نواز سے ملاقات میں دانش اسکول، خواتین یونیورسٹی، تربیلا جھیل پر پل اور ہری پور کے لیے نوکریوں کا کوٹہ منظور کیا ہے۔
مبصرین کے مطابق ہری پور کی سیاست نظریات کے بجائے اب بھی مفادات اور سرپرستی پر مبنی ہے، نوجوان ووٹرز کی جانب سے محدود نوکریوں اور صحت کے ناکافی نظام پر تنقید کے باوجود، ترین خاندان مقامی سیاست پر اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے، جس میں عمران خان کی مقبولیت اور اربوں کے ترقیاتی منصوبے مددگار ہیں۔
دوسری جانب، بابر نواز اور ان کے حامیوں کو امید ہے کہ ووٹرز، جو تمام اختیارات ایک ہی خاندان میں مرکوز ہونے کی پالیسی سے نالاں ہیں، طاقت کا توازن قائم کرنے کے لیے انہیں ووٹ دیں گے، وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بابر نواز نے مرکزی حکومت سے 70 ارب روپے کے گیس و بجلی منصوبے منظور کرائے تھے۔
عمر ایوب کے 2 کزن (ارشد ایوب اور اکبر ایوب) ہری پور سے موجودہ ایم پی اے ہیں۔
ہری پور کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ آج تک کوئی بھی خاتون براہِ راست انتخاب جیت کر صوبائی یا قومی اسمبلی نہیں پہنچی، حالانکہ یہاں خواندگی کی شرح 74.88 فیصد ہے۔
بیگم بلقیس نصرمن اللہ، جو سابق جج جسٹس اطہر من اللہ کی والدہ تھیں، انہوں نے 1988 اور 1990 میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا مگر شکست کھائی، بیگم گوہر ایوب 2002-2008 میں خواتین کی مخصوص نشست پر ایم این اے رہیں، جب ان کے بیٹے عمر ایوب شوکت عزیز کی کابینہ میں وزیرِ مملکت تھے۔
قومی وطن پارٹی کی ڈاکٹر فائزہ رشید، پی پی پی کی ارم فاطمہ اور مسلم لیگ (ن) کی موجودہ مخصوص نشست والی رکن ڈاکٹر شائستہ جدون بھی متعدد بار قسمت آزما چکی ہیں مگر کامیاب نہیں ہو سکیں۔
مبصرین کے مطابق مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کے درمیان مقابلہ کافی دلچسپ صورت اختیار کر چکا ہے اور ضمنی الیکشن جیتنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں متحرک ہیں۔












لائیو ٹی وی