• KHI: Clear 22°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.8°C
  • ISB: Cloudy 12.6°C
  • KHI: Clear 22°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.8°C
  • ISB: Cloudy 12.6°C

اداریہ: ’شیخ حسینہ کو سزائے موت سے بنگلہ دیش میں عدم استحکام مزید بڑھے گا‘

شائع November 18, 2025
—تصویر: اے ایف پی
—تصویر: اے ایف پی

سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد جو ایک دور میں بنگلہ دیش پر آہنی حکمرانی کیا کرتی تھیں، گزشتہ سال بنگلہ دیش میں ہونے والی عوامی بغاوت کے دوران مبینہ طور پر اپنی حکومت کی جانب سے کیے گئے انسانیت سوز جرائم پر سزائے موت سنا دی گئی ہے۔

دوسری جانب شیخ حسینہ جو اگست 2024ء میں ملک سے فرار ہوکر بھارت میں مقیم ہیں، نے اس فیصلے کو ’جانبدار‘ اور ’ٹریبونل کی دھاندلی‘ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ جس عدالت انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے انہیں سزا سنائی ہے، وہ خود شیخ حسینہ نے قائم کی تھی۔ ان کے دورِ حکومت میں اسی ٹریبونل نے ان کے کئی سیاسی مخالفین بالخصوص جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش اور اپوزیشن بی این پی کے رہنماؤں کو 1971ء کے واقعات میں مبینہ کردار پر پھانسی کی سزائیں سنائی تھیں۔

بہت سے لوگوں نے بجا طور پر ان مقدمات کو غیر منصفانہ قرار دیا تھا۔ آج خود شیخ حسینہ انہی اداروں کی شکار دکھائی دیتی ہیں جنہیں انہوں نے اپنے مخالفین کو ختم کرنے کے لیے بنایا تھا۔

اگرچہ اس مقدمے کی شفافیت اور جلد بازی پر سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ شیخ حسینہ کی حکومت, وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی آمرانہ طرزِ عمل اختیار کرنے لگی تھی۔ مخصوص افراد کو نوازا گیا جبکہ مخالفین کو مسلسل نشانہ بنایا گیا۔ جمہوری اصول ترک کر دیے گئے اور اس کی جگہ شیخ حسینہ، ان کے والد شیخ مجیب اور ان کی جماعت عوامی لیگ کے گرد شخصیت پرستی کے کلچر نے لے لی۔

شیخ حسینہ کے جابرانہ اقدامات بالآخر گزشتہ سال مشتعل عوام پھٹ پڑے جس نے اُن کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور انہیں دہائیوں سے اپنے قریب سمجھے جانے والے اتحادی بھارت میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔

یہ بات واضح ہے کہ 2024ء کے احتجاج کے دوران ان کی حکومت نے مظاہرین پر سختیاں کیں۔ خود انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ ’ہم صورتحال پر قابو کھو بیٹھے تھے‘۔ رواں سال کے آغاز میں ان کی جماعت پر پابندی لگا دی گئی جبکہ ان کے مرحوم والد جو کبھی ’بنگلہ بندھو‘ کہلائے جاتے تھے، وہ بھی مظاہرین کے اشتعال کا نشانہ بنے۔

مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنے 5 دہائیوں سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود سیاسی استحکام آج بھی اس ملک سے دور ہے۔ جو معاشی ترقی بنگلہ دیش نے شیخ حسینہ کے دور میں حاصل کی تھی، اس پر ان کی جانب سے اختلافِ رائے کو کچلنے اور اپوزیشن پر مسلسل حملوں کے باعث پردہ پڑ گیا ہے۔

آج بنگلہ دیش ایک فیصلہ کُن موڑ پر کھڑا ہے۔ اگلے سال انتخابات ہونے والے ہیں اور ضروری ہے کہ عبوری حکام جلد از جلد پوری طرح جمہوری حکومت کی بحالی کو یقینی بنائیں۔ انتخابات کی شفافیت کے لیے ضروری ہے کہ عوامی لیگ کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے۔

یہ یاد رکھنا چاہیے کہ 2024ء کے انتخابات جس کے ذریعے شیخ حسینہ دوبارہ برسراقتدار آئی تھیں اور اپوزیشن نے ان کا بائیکاٹ کیا تھا، منصفانہ تصور نہیں کیے گئے تھے اور یہی ان کے اقتدار کے خاتمے کی بڑی وجہ بنا۔ اسی لیے ضروری ہے کہ آئندہ انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کو حصہ لینے کی اجازت ہو تاکہ عمل کی ساکھ مبہم نہ ہو۔

جن اہلکاروں نے جرائم کیے ہوں، انہیں انصاف کا سامنا کرنا چاہیے۔ لیکن اگر یہ عمل انتقامی رنگ اختیار کرلے خصوصاً سزائے موت جیسے انتہائی اقدامات جس کی یہ اخبار مخالفت کرتا ہے تو اس سے عدم استحکام مزید بڑھے گا۔ بالغ اور ذمہ دار ریاستیں انصاف کے تقاضوں اور مفاہمت کی ضرورت کے درمیان توازن قائم کرتی ہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

اداریہ

کارٹون

کارٹون : 14 دسمبر 2025
کارٹون : 13 دسمبر 2025