لاہور ہائیکورٹ کا پاکستانی مرد سے شادی کرنے والی بھارتی خاتون کو ہراساں نہ کرنے کا حکم
لاہور ہائی کورٹ نے منگل کے روز پولیس کو پاکستانی شہری سے شادی کرنے والی بھارتی خاتون کو ہراساں کرنے سے روک دیا، خاتون نے پولیس کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔
یہ خاتون پہلے سکھ تھیں، مذہبی مقاصد کے لیے پاکستان آئی تھیں، لیکن انہوں نے دوسرے درخواست گزار (جو اب اُن کے شوہر ہیں) سے شادی کرنے کے لیے اسلام قبول کر لیا تھا، خاتون نے شکایت کی کہ پولیس نے ’فاروق آباد، ضلع شیخوپورہ میں ان کے گھر پر غیر قانونی چھاپہ مارا اور شادی ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا‘۔
درخواست کی سماعت لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس فاروق حیدر نے کی، جنہوں نے پولیس کو حکم دیا کہ وہ درخواست گزاروں کو ہراساں کرنا بند کریں۔
درخواست کی کاپی ’ڈان‘ کے پاس دستیاب ہے، جو 12 نومبر کو آئین کے آرٹیکل 199 (ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار) کے تحت دائر کی گئی تھی۔
درخواست میں الزام لگایا گیا کہ خاتون کے سابق مذہب کی بنیاد پر فاروق آباد کے رہائشی نے ایس ایچ او سے درخواست کی کہ وہ 8 اور 11 نومبر کو دو مرتبہ درخواست گزاروں کے گھر پر غیر قانونی چھاپہ ماریں، ان تھانیداروں نے ’انہیں غیر ضروری ہراساں کیا‘ اور شادی ختم کرنے پر مجبور کیا۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ ’پولیس اہلکار قانونی تحفظ فراہم کرنے کے پابند ہیں، جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 35 میں ضمانت دی گئی ہے, ریاست میاں بیوی کی زندگی اور آزادی کے تحفظ کی پابند ہے۔
آرٹیکل 35 (خاندان کے تحفظ) کے علاوہ، درخواست میں آرٹیکل 9 (شخصی تحفظ) کا بھی حوالہ دیا گیا کہ کسی شخص کو قانون کے مطابق کارروائی کے بغیر زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ شوہر پاکستان کا شہری ہے، جب کہ اس کی بیوی نے بھی اپنا ویزا بڑھانے اور پاکستانی شہریت حاصل کرنے کے لیے سفارت خانے سے رابطہ کیا ہے۔
درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا کہ فریقین کے اقدامات ’قانون اور بنیادی حقوق کے خلاف‘ ہیں اور ان کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہیں، اگر عدالت نے مناسب حکم جاری نہ کیا تو درخواست گزار ’ناقابلِ تلافی نقصان‘ اٹھائیں گے۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ لاہور ہائیکورٹ فریقین کو حکم دے کہ وہ درخواست گزاروں کو غیر ضروری ہراساں نہ کریں اور درخواست گزاروں کی ازدواجی زندگی میں مداخلت نہ کریں، نیز عدالت جو مناسب سمجھے وہ دیگر ریلیف بھی فراہم کرے۔
اگست میں جاری کردہ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی ) کی ایک رپورٹ میں گزشتہ سال مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد میں تشویشناک اضافے کی نشاندہی کی گئی تھی۔
رپورٹ جن میں احمدیوں کی ٹارگٹ کلنگ اور توہینِ مذہب کے الزام میں پولیس کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل شامل ہیں، ایچ آر سی پی نے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور احتساب کے نظام میں فوری اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا تھا۔












لائیو ٹی وی