• KHI: Partly Cloudy 26.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 21.4°C
  • ISB: Partly Cloudy 19.8°C
  • KHI: Partly Cloudy 26.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 21.4°C
  • ISB: Partly Cloudy 19.8°C

عدالت نے ثانیہ زہرہ کے شوہر کو بیوی کے قتل کے جرم میں سزائے موت سنادی

شائع November 19, 2025
— فائل فوٹو: سوشل میڈیا
— فائل فوٹو: سوشل میڈیا

ملتان میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے گزشتہ سال قتل ہونے والی 20 سالہ حاملہ ثانیہ زہرہ کے شوہر کو سزائے موت سنا دی۔

9 جولائی 2024 کو 2 بچوں کی ماں ثانیہ زہرہ اپنے کمرے میں چھت کے پنکھے سے لٹکی ہوئی مردہ پائی گئی تھیں۔

ثانیہ زہرہ کے والد سید اسد عباس نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی بیٹی کی اچانک موت خودکشی نہیں بلکہ قتل ہے جبکہ ان کی بیٹی کے سسرالی قتل کو خودکشی ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

مرحومہ کے والد کی مدعیت میں تھانہ نیو ملتان میں ایف آئی آر درج کی گئی تھی، جس میں پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعات 148 (تشدد)، 149 (غیرقانونی اجتماع) اور 302 (جان بوجھ کر قتل) شامل تھیں۔

18 نومبر کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملتان محسن علی خان نے قرار دیا کہ سید محمد علی رضا مرحومہ ثانیہ زہرہ کے قتل کے جرم میں باقاعدہ طور پر قصوروار ثابت ہوا ہے اور مجرم کو پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 (بی) کے تحت بطور سزائے موت سنائی جاتی ہے۔

عدالتی حکم میں مزید لکھا گیا ’سید محمد علی رضا مجرم کو پھانسی دے کر اس وقت تک لٹکایا جائے جب تک اس کی موت واقع نہ ہو جائے‘۔

پی پی سی کی دفعہ 302 (بی) کے مطابق جو کوئی قتلِ عمد کرے گا، اسے بطور تعزیر سزائے موت یا عمر قید دی جا سکتی ہے۔

عدالت نے مجرم کو ہدایت کی کہ وہ ضابطہ فوجداری 1898 کی دفعہ 544-اے کے تحت مقتولہ کے خاندان کو 5 لاکھ روپے معاوضہ ادا کرے، ادائیگی میں ناکامی کی صورت میں مجرم 6 ماہ قید کاٹنے کا پابند ہوگا۔

دو الگ عدالتی فیصلوں میں مرکزی مجرم کے بھائی سید حیدر رضا اور اس کی والدہ سیدہ ازرا پروین کو بھی سانیا زہرا کے قتل کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔

عدالت نے دونوں کو عمر قید کی سزا سنائی اور حکم دیا کہ وہ مقتولہ کے خاندان کو 5، 5 لاکھ روپے معاوضہ ادا کریں۔

ثانیہ زہرہ کیس

جولائی کے اوائل میں پنجاب کے شہر ملتان میں 20 سالہ ثانیہ زہرہ کو بہیمانہ انداز میں قتل کردیا گیا تھا۔

بعد ازاں 14 جولائی کو سیدہ ثانیہ زہرہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ان کی گردن پر موجود نشان پھانسی کے نشان سے مطابقت رکھتا ہے اور ان کی موت پھانسی کے باعث دم گھٹنے سے ہوئی۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ان کے گلے کی ہڈی نہیں ٹوٹی اور جسم پر زخم یا تشدد کے کوئی نشان بھی نہیں ملے، معدے، جگر اور تلی کے نمونے مزید تجزیہ کے لیے پی ایف ایس اے کو بھیجے گئے ہیں، رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ خاتون اپنی موت کے وقت حاملہ نہیں تھی۔

جب فرانزک ماہر نے مقتولہ کی گردن میں بندھی رسی کھولنے کی کوشش کی تو وہ بہت آسانی سے کھل گئی تھی، مزید بتایا گیا تھا کہ جائے وقوع پر موجود ڈاکٹر نے کہا کہ مقتولہ کی موت اسی روز شام 6 بجے ہو چکی تھی۔

پولیس نے مقتولہ کے والد کی مدعیت میں مرحومہ کے شوہر علی رضا، اس کے بھائی علی حیدر، والد جیون شاہ، والدہ ازرا بی بی، بہن کنول بی بی اور بھابھی سیدہ دعا کے خلاف پی پی سی کی دفعات 302، 148 اور 149 کے تحت مقدمہ درج کیا۔

20 جولائی کو ملتان پولیس نے مذہبی رہنما اسد شاہ کی بیٹی ثانیہ زہرہ کی مبینہ خودکشی کے کیس میں نامزد ملزم مقتولہ کے شوہر علی رضا کو گرفتار کرلیا تھا۔

12 اگست کو وزیراطلاعات پنجاب عظمٰی بخاری نے ثانیہ زہرہ قتل کیس کے حوالے سے کہا تھا کہ ان کی موت خودکشی سے نہیں ہوئی بلکہ شواہد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ انہیں قتل کیا گیا ہے۔

لاہور میں حنا پرویز کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر اس کیس کو ٹیسٹ کیس سمجھا گیا ہے۔

وزیر اطلاعات پنجاب نے کہا تھا کہ پھندا لگنے سے گردن لمبی ہو جاتی ہے، اس پھندے سے ثانیہ زہرہ کیس کے اندر کوئی خودکشی کے شواہد موجود نہیں ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اس پھندے کو ساس اور شوہر نے مل کر ان کے گلے میں ڈالا تاکہ اس کو خودکشی کا رنگ دیا جاسکے، سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کی بنائی ہوئی فرانزک لیب کی رپورٹ اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ ثانیہ زہرہ کے گلے میں جو دوپٹہ باندھا گیا تھا وہ اس کے قتل کی وجہ نہیں ہے، یہ قتل اس سے پہلے ہو چکا تھا اس کو بعد اسے خودکشی کا رنگ دیا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 14 دسمبر 2025
کارٹون : 13 دسمبر 2025