• KHI: Partly Cloudy 20.6°C
  • LHR: Partly Cloudy 14°C
  • ISB: Cloudy 12.9°C
  • KHI: Partly Cloudy 20.6°C
  • LHR: Partly Cloudy 14°C
  • ISB: Cloudy 12.9°C

ریئل اسٹیٹ مفادات یا شخصیت کا سحر؟ زہران ممدانی کے مخالف سے حامی تک ٹرمپ کا سفر

شائع November 24, 2025

امریکی میڈیا پر کیے جانے والے چند تبصروں میں صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کی نیویارک شہر کے منتخب میئر زہران کوامے ممدانی کے ساتھ ملاقات کو ’برومینس‘ (دو مردوں کے درمیان گہری دوستی) قرار دینا مبالغہ آرائی ہوسکتی ہے لیکن کون بھلا یہ پیش گوئی کرسکتا تھا کہ اوول آفس میں دونوں کے مابین ہونے والی یہ ملاقات اس قدر دوستانہ ثابت ہوگی کہ یہ ری پبلکن پارٹی کے اعلیٰ رہنماؤں سمیت ممکنہ طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کے اہم اراکین کو بھی ششدر کردے گی۔

امریکی صدر جنہوں نے پہلے زہران ممدانی کو ایک ’کمیونسٹ‘، ’یہود مخالف‘ اور ’جنونی‘ قرار دیا تھا، جمعے کو نومنتخب میئر سے ملاقات سے قبل ان کا لہجہ بدلا ہوا محسوس ہوا جہاں وہ توقع کا اظہار کرتے نظر آئے کہ یہ ملاقات ’خوشگوار‘ ثابت ہوگی۔

ملاقات سے صرف ایک دن قبل ٹرمپ کی پریس سیکریٹری کیرولائن لیویٹ نے ایک بریفنگ میں کہا، ’یہ بہت اہم ہے کہ کل ایک کمیونسٹ وائٹ ہاؤس آ رہا ہے کیونکہ یہی وہ شخص ہے جسے ڈیموکریٹک پارٹی نے ملک کے سب سے بڑے شہر کے میئر کے لیے منتخب کیا ہے‘۔

امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے رپورٹ کیا کہ فلوریڈا کے ری پبلکن سینیٹر رِک اسکاٹ نے جمعے کو رات گئے زہران ممدانی کو ’حقیقی کمیونسٹ‘ قرار دیا اور پیش گوئی کی کہ وہ ’وائٹ ہاؤس جا رہے ہیں تاکہ صدر ٹرمپ انہیں سبق سکھائیں‘۔

سی این این کے مطابق ری پبلکنز نے ہفتوں بلکہ کئی ماہ تک یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ ڈیموکریٹس کو زہران ممدانی کی سیاست سے جوڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ڈیموکریٹس بھی اس بات سے خوفزدہ نظر آئے جیسا کہ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ان کی حمایت کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار نظر آئے۔ ’یہ جی او پی (ری پبلکن پارٹی) کا پہلا بڑا موقع تھا کہ وہ یہ پیغام پہنچا سکے جو ٹرمپ کے ایجنڈے اور ڈیموکریٹک پارٹی میں پھیلی ہوئی مبینہ کمیونزم کے درمیان تضاد قائم کرسکے لیکن ٹرمپ نے اس حکمت عملی کو مکمل طور پر برباد کر دیا‘۔

انہوں نے یقیناً ری پبلکن پارٹی کو حیران کُن طور پر یہ دعویٰ مسترد کرکے چونکا دیا کہ زہران ممدانی ایک ’جہادی‘ ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا وہ نیو یارک کے گورنر کے لیے ری پبلکن امیدوار ایلیس اسٹیفانک (جو کہ اسرائیل کے حق میں مؤقف رکھنے والی کانگریس رکن ہیں) کے اس دعوے سے اتفاق کرتے ہیں کہ زہران ممدانی جہادی ہیں۔ اس پر ٹرمپ نے کہا، ’نہیں، میں اتفاق نہیں کرتا‘ اور انہوں نے اس تبصرے کو انتخابی مہم کا حصہ قرار دیا۔

امریکی صدر نے نیو یارک کے نوجوان میئر کو بھی ’کافی سخت‘ امیدواروں کے خلاف کامیابی پر سراہا جوکہ اپنی عمر کے اعتبار سے اس وقت پیدا ہوئے ہوں گے کہ جب ٹرمپ کی عمر 45 برس تھی۔ ٹرمپ نے کہا کہ میئر منتخب ہونے والے زہران ممدانی اپنی پالیسیز کے ذریعے ری پبلکنز کو سرپرائز دیں گے۔

صرف یہی نہیں بلکہ جب رپورٹرز نے ان کے میئرل مہم کے کچھ بیانات کے بارے میں سوالات کیے جن میں وائٹ ہاؤس کے موجودہ صدر کو ’فاشسٹ‘ کہنے والا بیان بھی شامل تھا، ٹرمپ نے اپنے پُرکشش مہمان کا دفاع کیا۔ یہ واضح طور پر علامت تھی کہ ٹرمپ کا دل بدل چکا ہے اور اس سے یہ ظاہر ہوا کہ زہران ممدانی کے انتخابی دوڑ میں پہلی بار حصہ لینے کے بعد سے ٹرمپ کے مؤقف میں واضح تبدیلی آئی تھی۔

ایک واضح سوال جو سب پوچھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ کیوں؟ میں نے نیو یارک میں مقیم ایک جنوبی ایشیائی نژاد تجزیہ کار سے یہ سوال کیا جنہوں نے مذاحیہ لہجے میں یہ ریمارکس دیے کہ نومنتخب میئر زہران ممدانی نے پاکستان کی قیادت کی حکمت عملی سے سبق لیتے ہوئے ٹرمپ کو ’اپنے مہربان لہجے سے جیت لیا ہے‘۔

پھر سنجیدہ انداز میں انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک خود پسند اور بدتہذیب شخص ہیں۔ زہران ممدانی جو غیرمعمولی طور پر جذباتی ذہانت رکھتے ہیں، انہوں نے شاید صدر کی ان دونوں خصوصیات پر کام کیا۔

انہوں نے اپنی جنوبی ایشین دلکشی، بزرگوں کے احترام کی عادت کو ابلاغ کی بہترین مہارتوں کے امتزاج سے 79 سالہ ٹرمپ کی خود پسندی کے لیے استعمال کیا لیکن ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ بھی واضح طور پر شائستگی سے بتایا کہ وہ ٹرمپ کی بدلحاظی کا شکار ہونے والوں میں سے نہیں ہیں۔

اگرچہ زہران ممدانی، امریکی صدر کے ساتھ ادب سے کھڑے رہے جبکہ ٹرمپ اپنی میز پر بیٹھ کر میڈیا سے بات کر رہے تھے لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ غزہ میں جنگ جسے وہ نسل کشی قرار دیتے ہیں، کیا وہ سمجھتے ہیں کہ امریکا اس میں براہ راست ملوث ہے جس پر نوجوان میئر نے فوراً یہ ثابت کر دیا کہ وہ کسی بھی طرح کی کمزوری دکھانے والے نہیں ہیں۔ زہران ممدانی نے دوبارہ اپنی پوزیشن دہرائی کہ اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی کی اور امریکا نے اس کی مالی مدد کی۔ انہوں نے فخر سے کہا، ’میں ایک جمہوری سوشلسٹ ہوں‘۔

زہران ممدانی ان تمام سوالات کے جوابات دینے کے ساتھ ساتھ نیویارک کے لوگوں کے لیے ’سستی‘ اور استطاعت کے مطابق شہری زندگی کے اپنی انتخابی مہم کے اہم مسئلے پر بھی بات کرتے رہے۔ امریکا میں مہنگائی کی شرح میں دوبارہ اضافے کے ساتھ ہی ٹرمپ کی مقبولیت کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے۔

ٹرمپ کے پاس زہران ممدانی کی سستی اشیا کی بات سے اتفاق کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ رہائش کے اخراجات ایک اہم مسئلہ ہے۔ ٹرمپ نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے یہ مسئلہ اٹھایا تھا اور اپنی صدارتی مہم کے دوران اس پر زور بھی دیا تھا۔

جب ٹرمپ سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا وہ نیو یارک کے لیے وفاقی فنڈنگ میں کمی کریں گے جیسا کہ انہوں نے میئرل انتخاب سے پہلے دھمکی دی تھی تو انہوں نے کہا کہ وہ زہران ممدانی کو نقصان پہنچانے کی بجائے ان کی مدد پر توجہ مرکوز کریں گے تاکہ ’ہم دونوں کے پسندیدہ شہر‘ کو فائدہ پہنچ سکے۔

حالانکہ ٹرمپ حالیہ برسوں میں فلوریڈا منتقل ہو گئے تھے لیکن وہ ہمیشہ نیویارک کے شہری ہی سمجھے جائیں گے اور انہوں نے کہا کہ میئر منتخب ہونے والے زہران ممدانی نیویارک سٹی کو دوبارہ عظیم بنانا چاہتے ہیں تو وہ ان کا حوصلہ بڑھائیں گے۔

ایک اور تجزیہ کار نے کہا کہ صدر ’مضبوط‘ رہنماؤں کو پسند کرتے ہیں جیسا کہ انہوں نے بار بار عوامی طور پر بھی کہا ہے پھر چاہے وہ پاکستان کے فوجی سربراہ کی بات کر رہے ہوں یا اپنے دنیا بھر کے اتحادیوں کے بارے میں جن میں حال ہی میں منتخب ہونے والی جاپانی وزیر اعظم بھی شامل ہیں۔ ’انہیں زہران ممدانی کو بھی اسی زمرے میں رکھنا چاہیے کیونکہ نومنتخب میئر نے ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے اسٹیبلشمنٹ کا مقابلہ کرکے غیر معمولی حالات میں کامیابی حاصل کی ہے‘۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کئی سیاسی ماہرین اس بات پر حیران ہیں کہ نوجوان سیاستدان نے در در جا کر انتخابی مہم چلانے کے لیے کس طرح رضاکاروں کا لشکر اکٹھا کیا اور ان کی میڈیا ٹیم نے سوشل میڈیا پر نئے یا پہلی بار ووٹ دینے والے شہریوں کو ہدف بنانے کے لیے شاندار پیغام رسانی کی جبکہ زہران نے انٹرویوز اور مہم کے اشتہارات کے ذریعے روایتی میڈیا کے ذریعے عوام تک اپنا پیغام پہنچایا۔

یقیناً اوول آفس میں دوستانہ ملاقات کے میڈیا کے تجزیات میں ایک چیز غائب تھی جو صدر کی پالیسیز اور رویے کی ’لین دین‘ کی نوعیت تھی۔ وہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے لیے سخت یہاں تک کہ بدتہذیب لہجہ اختیار کرتے نظر آئے کیونکہ ٹرمپ کے خیال میں یوکرین کے صدر وہ شخص تھے جو ’ضرورت مند‘ تھے۔

لیکن زہران ممدانی ایسے نہیں۔ شاید یہ حقیقت بھی اہم ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ، ان کے قریبی دوست اور خصوصی ایلچی اسٹیو ویٹکوف، ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر (اور دیگر دوست) سب نیو یارک سٹی میں رئیل اسٹیٹ کے مفادات رکھتے ہیں جن کی مالیت کئی ارب ڈالرز ہے۔

شہر میں رئیل اسٹیٹ کی نگرانی ہو، زوننگ ہو، آگ اور تدابیر کے قوانین ہوں یا عمارت کے لائسنس کا اجرا یا پھر سوشل ہاؤسنگ منصوبوں کے لیے معاہدے ہوں، سب سٹی ہال کے دائرہ کار میں طے ہوتے ہیں۔ اور شہر کا میئر سٹی ہال کو کنٹرول کرتا ہے۔

تو جیرڈ کشنر، اسٹیو ویٹکوف اور دیگر احباب و دوست کاروباری حضرات و ساتھی، شراکت دار اور خود ٹرمپ نے یقیناً یہ ضروری سمجھا ہوگا کہ سٹی ہال کو اپنی طرف رکھنا کتنا ضروری ہے اور سیاسی اختلافات اور مفادات کو ایک جانب رکھتے ہوئے اس کے اختیارات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عباس ناصر

عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abbasnasir59@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 13 دسمبر 2025
کارٹون : 12 دسمبر 2025