واشنگٹن: وائٹ ہاؤس کے قریب افغان شہری کی فائرنگ، 2 فوجی زخمی، ٹرمپ نے واقعہ ’دہشتگردی‘ قرار دیدیا
بدھ کے روز وائٹ ہاؤس سے چند بلاکس کے فاصلے پر دن دہاڑے فائرنگ کے واقعے میں امریکی نیشنل گارڈ کے 2 اہلکار شدید زخمی ہوگئے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس واقعے کو ’دہشت گردی کا عمل‘ قرار دیا ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ اس واقعے میں 2 اہلکار شدید زخمی ہوئے، جو ’بدی، نفرت اور دہشت گردی کا عمل تھا، یہ ہمارے پورے ملک کے خلاف ایک جرم تھا۔
امریکی صدر نے تصدیق کی کہ دن کی روشنی میں وائٹ ہاؤس سے دو بلاکس کے فاصلے پر ہونے والی فائرنگ کے بعد زیر حراست شخص ’افغانستان سے آیا ہوا غیر ملکی‘ ہے۔
ٹرمپ مشکوک شخص 2021 میں ’ان بدنام زمانہ پروازوں کے ذریعے‘ امریکا پہنچا تھا، جو طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان سے انخلا کرنے والے افغان شہریوں کے انخلا کی طرف اشارہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اب افغانستان سے آنے والے ہر فرد کا دوبارہ جائزہ لینا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ضروری اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ ایسے تمام غیر ملکیوں کو ملک سے نکالا جا سکے جو یہاں کے نہیں، یا جو ہمارے ملک کو فائدہ نہ پہنچائیں، اگر وہ ہمارے ملک سے محبت نہیں کرتے تو ہم انہیں نہیں چاہتے۔
’ہدف بناکر نشانہ بنایا گیا‘
واقعے کے وقت ٹرمپ فلوریڈا میں تھے، فائرنگ کے بعد وائٹ ہاؤس کو مختصر طور پر لاک ڈاؤن کر دیا گیا، جب کہ وفاقی اور مقامی اداروں کے اہلکار بڑی تعداد میں علاقے میں پہنچ گئے۔
واشنگٹن کی میئر میوریل باؤزر نے اسے ’ٹارگٹڈ شوٹنگ‘ قرار دیا جو ایک ہی شخص نے کی، انہوں نے کہا کہ ملزم کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
فائرنگ مقامی وقت کے مطابق دوپہر 2:15 بجے اس وقت ہوئی جب دونوں فوجی (ایک مرد اور ایک خاتون) ہائی ویزیبلٹی پیٹرولنگ کر رہے تھے۔
ڈی سی پولیس کے ایگزیکٹیو اسسٹنٹ چیف جیفری کیرول کے مطابق حملہ آور ایک موڑ سے نکلا، اس نے اسلحہ اٹھایا اور بغیر کسی انتباہ کے نیشنل گارڈ کے اہلکاروں پر دھاوا بول دیا۔
دونوں اہلکاروں کو متعدد گولیاں لگیں اور انہیں مقامی ٹراما مراکز پہنچایا گیا، جہاں ان کی حالت تشویشناک ہے، حملہ آور بھی زخمی ہوا۔
کیرول نے کہا کہ تحقیقات جاری ہیں کہ اسے کس کی گولی لگی، لیکن انہوں نے تصدیق کی کہ مزید کوئی مشکوک شخص نہیں اور نہ ہی کوئی جاری خطرہ موجود ہے۔
شام تک، متعدد قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے ‘اے بی سی’ اور ‘سی این این نیوز’ اور دیگر اداروں کو بتایا کہ ایف بی آئی سمجھتی ہے کہ زیرِ حراست شخص کی شناخت کر لی گئی ہے۔
ہسپتال میں لیے گئے فنگر پرنٹس کی ابتدائی میچنگ واشنگٹن اسٹیٹ کے ایک شخص سے ہوئی جو اگست 2021 میں افغانستان سے امریکا آیا تھا۔
نیویارک ٹائمز نے تحقیقات سے واقف ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے مشتبہ شخص کی شناخت 29 سالہ رحمٰن اللہ لاکانوال کے طور پر کی، اگرچہ متعلقہ اداروں نے نام سرکاری طور پر جاری نہیں کیا تھا۔
سینئر انسداد دہشت گردی حکام نے ’اے بی سی نیوز’ کو بتایا کہ ایف بی آئی اس واقعے کو عالمی دہشت گردی کے ممکنہ عمل کے طور پر دیکھ رہی ہے، اور یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ آیا حملہ کسی غیر ملکی شدت پسند گروہ کی ترغیب سے کیا گیا۔
اگرچہ حکام نے زور دیا کہ تاحال کوئی محرک ثابت نہیں ہوا۔
ٹرمپ اس واقعے کے بارے میں بات کرنے والے پہلے شخص تھے، انہوں نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’وہ جانور جس نے دونوں نیشنل گارڈز پر فائرنگ کی، شدید زخمی ہے‘ اور ’بہت بھاری قیمت چکائے گا‘۔
انہوں نے نیشنل گارڈ اور وفاقی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو واقعی عظیم لوگ قرار دیا۔
فائرنگ کے بعد امریکی وزیرِ دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے کہا کہ صدر نے انہیں حکم دیا ہے کہ مزید 500 نیشنل گارڈ اہلکاروں کو فوراً واشنگٹن میں تعینات کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ وائٹ ہاؤس کے چند قدم کے فاصلے پر ہوا، یہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔
وائٹ ہاؤس کو مختصر طور پر لاک ڈاؤن بھی کیا گیا، حالانکہ ٹرمپ اس وقت دارالحکومت میں موجود نہیں تھے۔
پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ نے کہا کہ صدر کو بریف کر دیا گیا ہے۔
کچھ دیر کے لیے صورتحال اس وقت الجھ گئی جب ویسٹ ورجینیا کے گورنر پیٹرک موریسی نے ایک بیان جاری کیا اور پھر واپس لے لیا، جس میں کہا گیا تھا کہ دونوں فوجی ہلاک ہو گئے ہیں، ان کے دفتر نے بعد میں کہا کہ یہ ’ابتدائی اور متضاد رپورٹس‘ پر مبنی تھا۔
مسلم کمیونٹی میں بے چینی
یہ واقعہ امریکا کی مسلم کمیونٹی میں بھی تشویش کا باعث بنا، جب ’این بی سی‘ نیوز نے ابتدا میں رپورٹ کیا کہ ایف بی آئی اس کو ممکنہ دہشت گردی کا واقعہ سمجھ کر تفتیش کر رہی ہے اور مشتبہ شخص ابتدائی طور پر ایک افغان شہری کے طور پر شناخت ہوا تھا۔
ایک مسلم سیاسی تجزیہ کار نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ رپورٹ غلط ہو، اگر یہ درست نکلا، تو امریکا بھر میں مسلم کمیونٹیز کے خلاف شدید ردعمل کا خدشہ ہے۔
سول رائٹس گروپس نے بھی بیانات جاری کیے، جن میں احتیاط برتنے اور قیاس آرائیوں سے گریز کرنے کی اپیل کی گئی، جب تک حکام شناخت اور محرک کی تصدیق نہیں کر لیتے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی یہی اپیل دہرائی۔
ایک وفاقی اہلکار نے کہا کہ جیسے جیسے مزید معلومات سامنے آئیں گی تحقیق کی نوعیت بدل سکتی ہے، ایف بی آئی نے ابھی کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکالا۔
اگست سے کئی ریپبلکن ریاستوں کے نیشنل گارڈ اہلکار واشنگٹن میں تعینات ہیں، یہ اس وقت ہوا جب ٹرمپ نے اس مشن کو وسعت دی، جس کا مقصد اسٹریٹ کرائم سے نمٹنا اور امیگریشن نافذ کرنے کی کارروائیوں کی حمایت کرنا تھا۔













لائیو ٹی وی