سابق اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان 4 اکتوبر کو احتجاج کے مقدمے میں اشتہاری قرار
انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت (اے ٹی سی) نے بدھ کے روز سابق قائدِ حزبِ اختلاف عمر ایوب خان کو 4 اکتوبر کے احتجاج سے متعلق کیس میں بار بار عدم حاضری پر اشتہاری ملزم قرار دے دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سماعت کے دوران جج طاہر عباس سپرا نے نوٹ کیا کہ متعدد سمن کے باوجود عمر ایوب عدالت میں پیش نہیں ہوئے، جس پر جج نے اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کرنے کا حکم دیا۔
عدالت نے ان کی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کی مکمل تفصیلات بھی طلب کرلیں اور ان کا پاسپورٹ اور قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی) بلاک کرنے کی ہدایات جاری کیں۔
یہ مقدمہ گزشتہ سال پی ٹی آئی کے احتجاج سے متعلق ہے، جس میں عمر ایوب اور دیگر رہنماؤں کو دہشت گردی کی دفعات کے تحت نامزد کیا گیا ہے۔
علیمہ خان کی مختصر حراست
راولپنڈی میں ایک علیحدہ کیس کے دوران صورت حال اس وقت غیر متوقع ہوگئی، جب سابق وزیراعظم عمران خان کی بہن علیمہ خان کو عدالت سے باہر جانے کی کوشش پر خاتون پولیس اہلکاروں نے چند لمحوں کے لیے حراست میں لے لیا۔
علیمہ خان اور دیگر 10 ملزمان پر 26 نومبر کے احتجاج کے دوران آتشزدگی اور سرکاری کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام ہے۔
سماعت کے آغاز میں عدالت کو بتایا گیا کہ ایک شریک ملزم کی طرف سے دائر کی گئی درخواست پر بحث ہوگی، جس میں اے ٹی سی کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا گیا ہے۔
عدالت نے نوٹ کیا کہ علیمہ سمیت 11 ملزمان پر پہلے ہی فرد جرم عائد کی جا چکی ہے۔
پراسیکیوٹر ظہیر شاہ نے کہا کہ ملزمان پر دہشت گردی کی دفعات اس لیے لگائی گئی ہیں کیونکہ ان پر الزام ہے کہ احتجاج کے دوران آگ لگائی گئی اور سرکاری اہلکاروں کا گھیراؤ کیا گیا۔
سماعت کے دوران علیمہ خان نے کمرہ عدالت سے نکلنے کی کوشش کی، انہوں نے کہا کہ ہمارے وکیل سپریم کورٹ میں مصروف ہیں، ہمیں جانے دیا جائے، تاہم لیڈی پولیس اہلکار انہیں روک کر دوبارہ عدالت کے اندر لے آئیں۔
پراسیکیوٹر ظہیر شاہ نے اصرار کیا کہ علیمہ سیکشن 351 کے تحت عدالتی تحویل میں ہیں اور جج کی اجازت کے بغیر نہیں جا سکتیں۔
وکیل دفاع فیصل ملک نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ علیمہ خان نے خود کو عدالت کے حوالے کیا ہے اور انہیں حراست میں لینے کا کوئی حکم موجود نہیں، انہوں نے پولیس کارروائی کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
جج نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ وقت پر آ جاتے تو یہ سب نہ ہوتا۔
کمرہ عدالت میں ماحول تلخ ہوگیا، پراسیکیوشن نے کہا کہ ملزمان اور ان کے وکیل کارروائی میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔
پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ 8 پولیس گواہ اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر حاضر ہوئے ہیں، اور بار بار کی تاخیر مقدمے میں خلل ڈال رہی ہے۔
دلائل کے بعد عدالت نے علیمہ خان کو ضمانت کے کاغذات جمع کرانے کی اجازت دے دی، عدالت نے 8 پولیس گواہوں کو پہنچنے والی تکلیف کے باعث ملزمان کو ہر ایک گواہ کو 10 ہزار روپے ادا کرنے کا بھی حکم دیا۔
وکلا نے شوکت خانم میموریل ٹرسٹ اور نمل یونیورسٹی میانوالی کے بینک اکاؤنٹس بحال کرنے کی درخواست بھی کی۔
پراسیکیوٹر نے سخت جواب دیتے ہوئے کہا کہ افسوس ہے کہ ملزمان کے غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے شوکت خانم کا اکاؤنٹ منجمد کرنا پڑا۔
علیمہ خان نے جج سے مختصر گفتگو میں کہا کہ انہیں عدالت پر مکمل اعتماد ہے اور یقین ہے کہ انصاف ہوگا۔
دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے سماعت یکم دسمبر تک ملتوی کر دی۔












لائیو ٹی وی