پاکستان کی اقتصادی پالیسی میں بڑی تبدیلی، مستحکم اور پائیدار ترقی ہدف قرار
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے واضح کیا ہے کہ حکومت اب تیز مگر غیر پائیدار ترقی کے بجائے ایسی معاشی حکمتِ عملی اپنا رہی ہے جس میں مسلسل، مستحکم اور دیرپا ترقی کو بنیادی ہدف بنایا گیا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے حکومت کی اقتصادی سمت میں واضح تبدیلی کا اشارہ دیا ہے اور کہا ہے کہ اب ہدف ایسے مختصر دورانیے کے 5 سے 6 فیصد شرحِ نمو کے حصول کا نہیں رہا، جو بار بار معاشی عدم استحکام کا باعث بنتے رہے ہیں۔
انہوں نے پاکستان بزنس کونسل (پی بی سی) کے زیرِ اہتمام بدھ کو ہونے والے دو روزہ اقتصادی مکالمے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ماضی کے ایسے غیر پائیدار ترقیاتی چکروں کو دہرانا نہیں چاہتے۔
محمد اورنگزیب کے مطابق توجہ اب مستحکم اور پائیدار ترقی کی جانب منتقل ہو رہی ہے، جو بار بار پیدا ہونے والے بوم اینڈ بسٹ چکروں کو توڑ سکے اور معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرسکے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ترقی کی رفتار بذاتِ خود مسئلہ نہیں، اصل چیلنج اس ترقی کے تسلسل کو برقرار رکھنا ہے، ماضی میں کی جانے والی کوششیں پائیدار ثابت نہیں ہوئیں، جن کی انہوں نے نشاندہی بھی کی۔
انہوں نے پرانے انداز کو دہرانے سے خبردار کیا اور اس بات کو دہرایا کہ برآمدات پر مبنی ترقی ہی بہتر معاشی کارکردگی کا واحد راستہ ہے۔
وزیر خزانہ نے نام لیے بغیر ایک ہمسایہ ملک کی مثال دی جو 8 فیصد کی تیز رفتار ترقی کی جانب بڑھ رہا ہے، لیکن وہاں بیروزگاری بہت زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اصل توجہ اس بات پر ہے کہ ترقی سب کے لیے فائدہ مند اور منصفانہ ہو۔
مختلف شعبوں کی کارکردگی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت صنعتوں کو دوبارہ فعال بنانے کے لیے کام کر رہی ہے اور نئی صنعتی پالیسی میں اس پہلو پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔
ان کے مطابق اس سال معاشی ترقی 3.5 فیصد تک رہنے کی امید ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اگلے دو سے تین سال میں اقتصادی ترقی تقریباً 4 فیصد تک پہنچ سکتی ہے اور اگر زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبے مضبوط رہے تو درمیانی مدت میں یہ 6 سے 7 فیصد تک بھی جا سکتی ہے۔
ترسیلات زر کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ باقاعدہ ذرائع سے آنے والی رقوم ہر ماہ مستحکم ہیں اور روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کی کارکردگی بھی اچھی ہے، توقع ہے کہ اس سال ترسیلات زر 41 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ جیسے جیسے مالی حالات بہتر ہوں گے، قرض لینے کی لاگت میں کمی آئے گی۔
تاہم، انہوں نے کمپنیوں کو مشورہ دیا کہ صرف بینکوں سے قرض لینے کے بجائے سرمایہ مارکیٹوں سے بھی فائدہ اٹھائیں تاکہ وہ طویل المدت اور زیادہ مسابقتی سرمایہ حاصل کرسکیں۔
انہوں نے ٹیکس اور توانائی کے شعبوں میں موجود ساختی مسائل حل کرنے کے حکومتی عزم کا اعادہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم جمعرات کو پہلی ٹیکس ایڈوائزری کونسل کا اجلاس کر رہے ہیں، جو اگلے بجٹ سے قبل بزنس کمیونٹی سے تجاویز حاصل کرے گی۔
غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے اٹھائے گئے سیکیورٹی خدشات کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ قومی سلامتی کسی بھی صورت قابلِ سمجھوتہ نہیں۔
ان کے مطابق سیکیورٹی، معاشی استحکام اور منافع کی بلا رکاوٹ واپسی عالمی سرمایہ کاری کے لیے بنیادی شرائط ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 11ویں این ایف سی کا ابتدائی اجلاس 4 دسمبر کو ہوگا اور ہم صوبوں کے ساتھ مل کر ٹھوس نتائج حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
محمد اورنگزیب نے یہ بھی اعلان کیا کہ پاکستان اپنی پہلی پانڈا بانڈ کے اجرا کی تیاری کر رہا ہے، جو چینی نئے سال سے قبل متوقع ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آرامکو سمیت کئی بڑی عالمی کمپنیاں پاکستان میں دلچسپی دکھا رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ترکیہ اور ابوظہبی کی کمپنیاں بھی توانائی، معدنیات، ٹیکنالوجی، لاجسٹکس اور آٹوموٹیو شعبوں میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں، جو پاکستان کی معاشی پالیسیوں پر بڑھتے ہوئے عالمی اعتماد کا مظہر ہے۔
پاکستان بزنس کونسل کی چیئرپرسن ڈاکٹر زیلاف منیر نے کہا کہ ملک کی اقتصادی مضبوطی ایسے کاروبار سے وابستہ ہے جو پیداوار میں اضافہ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ معیشت کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ پالیسیاں تحقیق کی بنیاد پر بنیں، استحکام ہو اور طویل مدت کی اصلاحات جاری رہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ترقی کے لیے اعتماد، انصاف اور واضح منصوبہ بندی ضروری ہے، جب کہ پائیدار ترقی اس وقت ممکن ہوتی ہے جب حکومت، کاروباری طبقہ، تعلیمی ادارے اور سول سوسائٹی مل کر کام کریں۔
طویل مدتی استحکام
ایک اور سیشن میں وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے صنعت و پیداوار ہارون اختر خان نے کہا کہ معیشت پر دباؤ کم کرنے اور طویل مدتی استحکام پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ برآمدات کی رفتار درآمدات سے زیادہ ہو۔
انہوں نے صنعتی ترقی کو قومی خوشحالی کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ صنعت معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بہتر برآمدی کارکردگی کے لیے مقامی صنعت اور پیداوار کی حمایت ضروری ہے اور اسٹیل جیسے اہم خام مال کی مقامی پیداوار برآمدی صلاحیت بڑھانے کے لیے ناگزیر ہے۔
ہارون اختر نے کہا کہ پاکستان کو غیر ملکی سرمایہ کاری پر انحصار کرنے سے پہلے مقامی سرمایہ کاری کو مضبوط بنانا چاہیے۔
ان کے مطابق روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے تیز رفتار معاشی ترقی ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ آنے والی صنعتی پالیسی میں شامل ٹیکس پیکیج آئی ایم ایف کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
ان کے مطابق مجوزہ اصلاحات طویل مدتی اور پائیدار معاشی ترقی کی حمایت کے لیے تیار کی جا رہی ہیں۔












لائیو ٹی وی