’طالبان حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ اس کی بقا کا انحصار پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات پر ہے‘
پاکستان کے وزیرِ دفاع کے مطابق، ’ہمارے ہمسایے کے ساتھ پُرامن تعلقات صرف اسی صورت میں ممکن ہیں کہ جب کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی ہر طرح کی حمایت مکمل طور پر ختم کر دی جائے’۔ اُنہوں نے کہا کہ افغان فریق پر بھروسہ کرنا اس وقت تک مشکل ہے جب تک سرحد پار حملوں کے خلاف ٹھوس ضمانتیں نہ مل جائیں۔
حقیقت یہ ہے کہ افغان طالبان نے دوحہ معاہدے میں امریکا کو بھی ٹھوس ضمانتیں نہیں دیں اور قوی امکان ہے کہ وہ اسلام آباد کو بھی ایسی ضمانتیں نہیں دیں گے۔ میں طالبان کا وکیل نہیں ہوں لیکن پھر بھی میں اُن کی پالیسیز کو سمجھنا چاہوں گا۔
پاکستان اور افغانستان کی ایک مشترکہ مگر تنازعات سے بھرپور تاریخ ہے جہاں دونوں ایک دوسرے سے منسلک شناختیں، سرحدی تنازعات اور تقسیم شدہ قبائل رکھتے ہیں۔ دونوں ممالک ماضی میں بیرونی طاقتوں پر انحصار کرتے رہے ہیں، اُن کی سیکیورٹی اور اسٹریٹجک مفادات کے تابع رہے ہیں اور اُن کی جنگوں کا شکار بھی بنے ہیں۔ یہی وہ تمام عناصر ہیں جنہوں نے پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
یہ سب کچھ کابل کی پاکستان میں کھلی مداخلت اور اس کے ‘پختونستان’ کے دعوؤں سے شروع ہوا۔ اگرچہ پاکستان نے افغان مداخلت کو مؤثر طور پر ناکام بنایا لیکن خود کو افغانستان کے سیاسی عمل میں گھسیٹ لیے جانے کی اجازت دے دی۔
ابتدا میں اُس نے افغانستان کی اسلام پسند جماعتوں کی مدد سے اپریل 1978ء کی ثور انقلاب کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ بعدازاں اُس نے افغانوں کو ہمارے قبائلی علاقوں اور اس سے مضافات میں مہاجرین اور پھر مجاہدین کے طور پر پناہ لینے دی جنہوں نے آگے چل کر طالبان کی صورت اختیار کی۔
ہمسایہ ملک کے علاقائی دعووں کو واضح طور پر مسترد کرنے کے بجائے، ہم نے افغان گروہوں کو اپنے معاشرے اور سیاست میں جڑ پکڑنے اور اثر و رسوخ حاصل کرنے کی اجازت دی، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں وہ خود کو آرام دہ محسوس کرتے تھے۔ اس کی وجہ سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے اندرونی مسائل سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوئے لیکن طالبان نے اس سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔
شروع سے ہی طالبان کی سابقہ فاٹا کے علاقے اور بلوچستان میں واضح موجودگی رہی ہے۔ انہوں نے نئے جنگجوؤں کو بھرتی کرنے کے لیے پاکستان کے مذہبی مدارس کا استعمال کیا جن میں سے بیشتر میں انہوں نے خود بھی تعلیم حاصل کی تھی۔ یہ قبائلی علاقے افغانستان میں طالبان کی جنگ کے لیے ایک قسم کا محفوظ حمایتی گڑھ بن گئے۔
نتیجتاً، خطے میں انتہا پسندی میں اضافہ ہوا اور نئے عسکریت پسندوں کے اتحادی پیدا ہوئے۔ اب یہ گروہ ہمارے علاقوں میں وہی کچھ دہرانے کی کوشش کر رہے ہیں جو طالبان نے ان کی مدد سے افغانستان میں کیا تھا۔
افغان عوام جنہیں پہلے مجاہدین اور بعد میں ایک بدعنوان امریکا نواز حکمران طبقے نے دھوکا دیا جبکہ پاکستان جہاں سیکیورٹی ایجنسیز کا خیال تھا کہ صرف وہی جانتے ہیں کہ کیا بہتر ہے، دونوں نے وہ افغانستان کھو دیا ہے جو کبھی موجود تھا۔
طالبان ہیرو یا آزادی پسند نہیں ہیں۔ وہ خواتین کے ساتھ جس طرح کا سلوک کرتے ہیں وہ خود انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ وہ نہ صرف اپنی طاقت کی وجہ سے بلکہ اپنے عدم استحکام اور خامیوں کی وجہ سے بھی پاکستان کے لیے خطرہ ہیں۔
تقسیم کا شکار طالبان قیادت ایک ایسی آبادی پر حکومت کر رہی ہے جو کہ منقسم بھی ہے جبکہ اس کی معیشت بھی تباہ ہو رہی ہے اور انسانی صورت حال بدتر ہوتی جا رہی ہے۔
طالبان نے کئی جہادی، علیحدگی پسند اور دہشت گرد گروہوں کو بھی جگہ فراہم کی ہے جن کے ساتھ انہوں نے برسوں سے تعلقات استوار کیے ہیں۔ اس سے ایسے علاقے وجود میں آئے ہیں جن پر کوئی حقیقی حکومتی کنٹرول نہیں ہوتا بلکہ اس سے افغانستان خود اپنی سلامتی کو خطرے میں ڈالتا ہے۔
اس کمزور اور غیر مستحکم صورت حال میں طالبان کے پاس ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے کی خواہش یا صلاحیت نہیں ہے کیونکہ وہ ایک جیسے عقائد رکھتے ہیں۔ طالبان افغانستان میں ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کو اتحادی کے طور پر دیکھتے ہیں۔
طالبان ان کا استعمال داعش خراساں، قومی مزاحمتی محاذ یا ان کا تختہ الٹنے کی کسی بھی بیرونی کوشش کے خطرات سے دفاع کے لیے کرتے ہیں۔ طالبان ان گروہوں کو دوسرے ممالک سے سیاسی شناخت یا تجارتی معاہدوں جیسے فوائد حاصل کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔
طالبان کے ساتھ نمٹنا مشکل ہے، خاص طور پر اگر پاکستان ان سے کوئی ایسا کام کرنے کو کہے جس سے ان کی اپنی سلامتی کو خطرہ ہو۔ اسلام آباد کو طالبان کو دکھانے کی ضرورت ہے کہ ان کی بقا کا انحصار پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے پر ہے۔ اگر اس پیغام کو بھیجنے کے لیے فوجی کارروائی کی ضرورت ہے تو اسے صرف اس بات تک محدود ہونا چاہیے کہ پاکستان کیا سنبھال سکتا ہے اور ایسے میں طالبان کو زیر کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔
طالبان اگر خطرہ محسوس کریں گے تو اس سے وہ قدرتی طور پر ٹی ٹی پی کو اور زیادہ مضبوطی سے تھامے رہیں گے۔ جبکہ ایک کمزور، غیر مستحکم افغانستان کو سنبھالنا بہت مشکل ہوگا۔
بنیادی طور پر، پاکستان کو طالبان سے نمٹنا بھی ہے جبکہ ایسا کرتے ہوئے اسے ان کے خلاف اپنی حفاظت بھی کرنا ہے۔ ملک کو سرحدی کنٹرول، پناہ گزینوں اور تجارت جیسے مسائل پر صبر، بات چیت اور کسی حد تک دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان کے مسائل کا خالصتاً کوئی فوجی حل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پاکستان سنگین نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔
طالبان کی بھارت تک رسائی پر زیادہ ردعمل ظاہر کرنے کے بجائے، پاکستان کو کابل کو بتانا چاہیے کہ اسے بھارت کے ساتھ تعلقات رکھنے کا حق ہے لیکن ساتھ اس کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ ایک مناسب حکومت کی طرح کام کرے اور ٹی ٹی پی اور بلوچ باغیوں جیسے گروہوں کو اپنی سرزمین سے پاکستان میں کارروائی کرنے سے روکے۔
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ان گروہوں کو اندرون ملک بھی کمزور کرنا ہوگا جن سے طالبان کو اپنے کام نہ آنے والی پراکسیز کے خلاف کارروائی کرنے کی ترغیب ملے گی۔ طالبان پاکستان کے لیے اس مسئلے کو حل نہیں کر سکتے پھر چاہے وہ حل کرنا کیوں نہ چاہیں۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ افغانستان صرف ایک فوجی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ بنیادی طور پر مختلف فوجی پہلوؤں رکھنا والا ایک سیاسی مسئلہ ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔












لائیو ٹی وی