• KHI: Partly Cloudy 22.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.3°C
  • ISB: Cloudy 13.2°C
  • KHI: Partly Cloudy 22.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.3°C
  • ISB: Cloudy 13.2°C

اداریہ: ’احتساب کا مطالبہ کرتے نواز شریف کی جماعت کو خود احتسابی کی ضرورت ہے‘

شائع November 28, 2025

اگرچہ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف 2023ء میں پاکستان واپسی کے بعد سے زیادہ تر منظر عام سے غائب رہے ہیں لیکن بدھ کے روز انہوں نے نومنتخب قانون سازوں سے گفتگو کرتے ہوئے حساس سیاسی معاملات پر اپنی خاموشی توڑ دی۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ وہ ’بڑے مجرم‘ جنہوں نے جیل میں قید پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کو اقتدار میں لانے میں کردار ادا کیا تھا، انہیں بھی انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جانا چاہیے۔

نواز شریف نے نام لینے سے تو گریز کیا لیکن 2023ء میں وہ سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ، سابق آئی ایس آئی سربراہ جنرل فیض حمید، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور دیگر سینئر ججز پر یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ انہوں نے 2017ء میں انہیں وزیرِ اعظم ہاؤس سے برطرف کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

یہ بات قابلِ بحث نہیں کہ احتساب ضروری ہے خاص طور پر اُن لوگوں کا جو جمہوری عمل میں مداخلت کرتے رہے ہیں لیکن ایسا عمل کبھی بھی یک طرفہ نہیں ہونا چاہیے یا چند مخصوص لوگوں کے لیے نہیں ہونا چاہیے۔

ماضی میں نواز شریف نے عوامی بالادستی کے مؤقف پر ڈٹے رہنے کی کوشش کی اور اس کی قیمت انہوں نے اپنا وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ کھو کر ادا کی۔ مگر صرف اُن کا معاملہ پوری تصویر پیش نہیں کرتا۔

عمران خان کے سیاسی منظرنامے میں ابھرنے سے بہت پہلے سے مختلف ریاستی ادارے حکومتیں بنانے اور گرانے میں کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اور جہاں تک افراد کا تعلق ہے، ستم ظریفی یہ ہے کہ وہی عناصر جن پر نواز شریف نے اپنی برطرفی کا الزام لگایا تھا، انہی کو عمران خان کی حکومت گرانے اور مسلم لیگ (ن) کو دوبارہ اقتدار میں لانے میں کردار ادا کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔

مثال کے طور پر جنرل قمر جاوید باجوہ اس وقت بھی آرمی چیف تھے جب نواز شریف کو برطرف کیا گیا تھا اور اس وقت بھی کہ جب عمران خان کی حکومت برطرف کی گئی تھی۔ لہٰذا ایسے تمام واقعات کا تفصیل سے معائنہ کیا جانا چاہیے نہ کہ انہیں محض یک طرفہ نقطہ نظر سے دیکھا جائے۔

یہ تلخ حقیقت ہے کہ سیاستدان جن میں نواز شریف کی جماعت کے اراکین بھی شامل ہیں، اور ریاستی ادارے جن میں عدلیہ بھی شامل ہے، اکثر غیرمنتخب قوتوں کے ساتھ مل کر سازشوں کے ذریعے حریفوں کو برطرف کرنے میں ساتھ رہے ہیں۔ اُن کے کردار کی مزید جانچ ضروری ہے۔

دوسری جانب یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ جب نواز شریف ایسی قوتوں کی مداخلت پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں تو ان کی اپنی جماعت کے لوگ جن میں وزرا بھی شامل ہیں، اسی ہائبرڈ نظام کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ خود احتسابی کی جائے اور سیاسی طبقہ سنجیدگی سے سوچے کہ کس طرح وہ خود ایسے حالات پیدا کر دیتے ہیں جو غیر سیاسی قوتوں کو طاقت کے مراکز پر قابض ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

نواز شریف اور بےنظیر بھٹو نے 2006ء میں میثاقِ جمہوریت پر اس مقصد کے لیے دستخط کیے تھے کہ عوامی بالادستی کو مضبوط کیا جائے۔ اس دستاویز میں واضح طور پر درج ہے کہ ’کوئی بھی جماعت اقتدار میں آنے یا کسی جمہوری حکومت کو ہٹانے کے لیے فوج کی مدد طلب نہیں کرے گی‘۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)، تحریکِ انصاف تینوں ہی اس مقصد کو نظرانداز کرتی رہی ہیں اور نتیجتاً یہ جماعتیں ہائبرڈ نظام کا شکار بھی رہی ہیں اور اس سے مستفید بھی ہوئی ہیں۔

شاید اب ایک نئے میثاق کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو اپنے اختلافات ایک جانب رکھ کر اکٹھا ہونا ہوگا اور ایک حقیقی جمہوری اور آئینی نظام پر اتفاق کر کے اُس کے لیے مشترکہ طور پر کام کرنا ہوگا۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

اداریہ

کارٹون

کارٹون : 13 دسمبر 2025
کارٹون : 12 دسمبر 2025