بیوی ’تفویض کردہ طلاق‘ 90 دن کے اندر واپس لے سکتی ہے، سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ
سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ اگر شوہر بیوی کو طلاق کا حق تفویض کرے، تو اس میں طلاق کو منسوخ کرنے کا حق بھی شامل ہوتا ہے، بشرطیکہ یہ منسوخی طلاق کے نوٹس جاری ہونے کے 90 دن کے اندر کی جائے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس محمد شفیع صدیقی نے مشاہدہ کیا کہ مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961 کی دفعہ 8 کے تحت یہ صراحت موجود ہے کہ ’اگر شوہر نے بیوی کو طلاق کا حق باقاعدہ طور پر تفویض کیا ہو اور وہ اس حق کو استعمال کرنا چاہے، یا اگر شادی کے کسی بھی فریق کی خواہش ہو کہ شادی کو طلاق کے علاوہ کسی اور طریقے سے ختم کیا جائے، تو آرڈیننس کی دفعہ 7 کے احکامات حسبِ ضرورت اسی طرح نافذ ہوں گے۔
چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ (جس میں جسٹس شفیع صدیقی بھی شامل تھے) نے محمد حسن سلطان کی اپیل پر سماعت کی، جو سندھ ہائی کورٹ کے 7 اکتوبر 2024 کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی تھی۔
جسٹس محمد شفیع صدیقی نے قرار دیا کہ آرڈیننس کی دفعہ 8(1) میں بیوی کو طلاق کا حق تفویض کرنے کو واضح طور پر تسلیم کیا گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تفویض کردہ طلاق کے حق پر بھی دفعہ 7 کی دفعات اسی طرح لاگو ہوں گی۔
عدالت نے شوہر کی اپیل مسترد کر دی
فیصلے میں کہا گیا کہ جب بیوی کو طلاق کا حق تفویض کر دیا جائے تو وہ دفعہ 7 کے تحت شوہر کے مقام پر آ جاتی ہے، یعنی وہ شوہر کے تمام حقوق، اختیارات، ذمہ داریاں اور پابندیاں اسی طرح نبھاتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر بیوی اپنے شوہر کو طلاق دینا چاہے تو وہ چیئرمین یونین کونسل کو ایک نوٹس جاری کرے گی، جس کی کاپی شوہر کو بھی دی جائے گی، اور یہ طلاق نوٹس جاری ہونے کے 90 دن بعد ہی مؤثر ہو گی۔
اس کے علاوہ، بیوی اس 90 روزہ مدت کے ختم ہونے سے پہلے کسی بھی وقت طلاق کو واضح طور پر یا بالواسطہ طور پر واپس لے سکتی ہے، فیصلے میں زور دیا گیا۔
اصل تنازع یہ تھا کہ آیا طلاق (کسی بھی شکل میں، بشمول طلاقِ بدعت) ایک بار شروع ہونے کے بعد دفعہ 7 کے تحت 90 دن کے اندر واپس لی جا سکتی ہے یا نہیں، اور کیا یہی اصول بیوی کی جانب سے تفویض کردہ حق کے ذریعے شروع کی گئی طلاق پر بھی لاگو ہوتا ہے، چاہے یہ اختیار غیر مشروط طور پر دیا گیا ہو۔
نومبر 2016 میں محمد حسن سلطان (شوہر) اور مورِیال شاہ (بیوی) کی شادی ہوئی۔
فیصلے میں نوٹ کیا گیا کہ اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ شوہر نے بیوی کو طلاق کا حق غیر مشروط طور پر تفویض کیا تھا، شادی کے بعد دونوں نیویارک میں مقیم ہو گئے اور 9 اگست 2021 کو بیٹی کی پیدائش ہوئی۔
جون 2023 میں اختلافات اُبھرے، جب بیوی اپنی بیٹی کے ساتھ کراچی واپس آ گئی، اور 3 جولائی 2023 کو شوہر کو دفعہ 7(1) کے تحت طلاق کا نوٹس جاری کیا۔
شوہر نے 19 جولائی 2023 کو نیویارک میں بچی کی تحویل کے لیے کیس دائر کیا، نتیجتاً امریکی عدالت نے بیوی کو بیٹی کے ساتھ نیویارک واپس آنے کا حکم دیا۔
10 اگست 2023 کو، بظاہر 90 دن کی مدت میں ہی، بیوی نے طلاق کی کارروائی واپس لے لی اور نیویارک واپس چلی گئی، اس کی بنیاد پر 11 اگست 2023 کو چیئرمین یونین/آربیٹریشن کونسل (کینٹونمنٹ بورڈ کراچی) نے طلاق کی کارروائی ختم کر دی۔
اسی روز شوہر نے بھی دفعہ 7(1) کے تحت طلاق کا نوٹس دینے کی کوشش کی، مگر 10 نومبر 2023 کو خود ہی یونین کونسل کے چیئرمین سے درخواست کی کہ ان کارروائیوں کو معطل کر دیا جائے، کونسل نے 3 جنوری 2024 کو کارروائی ختم کر دی۔
دونوں احکامات بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیے گئے۔
سماعت کے دوران شوہر کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ چوں کہ طلاق نامہ دفعہ 7 کے نوٹس کے ہمراہ تھا، اس لیے بیوی نے 3 طلاقیں دے دی تھیں، (طلاقِ بدعت)، جو فوراً نافذ ہو جاتی ہیں، اور یہ کہ دفعہ 7 محض ایک رسمی کارروائی ہے۔
تاہم فیصلے میں کہا گیا کہ اس میں کوئی تنازع نہیں کہ بیوی نے 90 دن مکمل ہونے سے پہلے طلاق کی کارروائی واپس لے لی تھی، ایسی صورت میں، جب طلاق کا حق بیوی کو غیر مشروط طور پر تفویض کیا گیا ہو، تو اس میں طلاق کو واپس لینے یا منسوخ کرنے کا حق بھی شامل ہے، جیسا کہ اس کیس میں ہوا ہے۔












لائیو ٹی وی