حکومت سندھ کا این سی سی آئی اے کی طرز پر سائبر کرائم یونٹ بنانے کا منصوبہ
حکومت سندھ نے صوبے میں بڑھتے ہوئے آن لائن جرائم کا مقابلہ کرنے، سائبر سیکیورٹی کو مضبوط بنانے اور انٹرنیٹ صارفین کو زیادہ محفوظ آن لائن ماحول فراہم کرنے کے لیے ایک سائبرکرائم یونٹ قائم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق باخبر ذرائع نے بتایا کہ مجوزہ سائبرکرائم یونٹ کا مقصد سائبر جرائم کی تحقیقات اور ان کی روک تھام پر توجہ دینا اور صوبے کی سائبر سیکیورٹی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔
ذرائع نے بتایا کہ صوبائی سائبرکرائم یونٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ قریبی تعاون کرے گا تاکہ مجرموں کا سراغ لگا کر انہیں انصاف کے کٹہرے تک لایا جا سکے۔
اس وقت، نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) وفاقی ادارہ ہے، جو سائبر جرائم کی تحقیقات کا ذمہ دار ہے، جن میں ہراسانی، بینک فراڈ، دھمکیاں، بلیک میلنگ، یا الیکٹرانک آلات کی مدد سے کی جانے والی دھوکا دہی شامل ہیں، یہ فیس بک، واٹس ایپ، انسٹاگرام، ہاٹ میل یا یوٹیوب وغیرہ کی انتظامیہ سے شواہد کے لیے رابطہ بھی کرتی ہے۔
این سی سی آئی اے نے ایف آئی اے کے سابق سائبر کرائم وِنگ کی جگہ لے کر ایک آزاد ایجنسی کی حیثیت حاصل کی تھی۔
وفاق سے رجوع کیا جائے گا
وزیرِ داخلہ ضیا الحسن لنجار نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ صوبائی حکومت جلد ہی وفاقی حکومت سے اجازت طلب کرے گی تاکہ صوبائی سطح پر سائبر کرائم یونٹ قائم کرنے اور اس کے لیے ضروری قوانین بنانے کے اختیارات حاصل کیے جا سکیں۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت سے درخواست کی جائے گی کہ وہ سندھ پولیس کو پیکا 2016 کی دفعات 3 سے 23 کے تحت جرائم پر کارروائی کا مجاز ادارہ قرار دے۔
وزیرِ داخلہ (جو قانون اور پارلیمانی امور کا قلم دان بھی رکھتے ہیں) نے کہا کہ صوبائی اسمبلی، وفاقی حکومت کی منظوری سے مشروط، این سی سی آئی اے کی طرز پر صوبائی سائبرکرائم یونٹ کے قیام کے لیے قانون سازی کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ مجوزہ صوبائی سائبرکرائم یونٹ، سائبر جرائم سے نمٹنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرے گا، کیوں کہ سندھ میں ایف آئی اے کا سائبر کرائم وِنگ سنگین مسائل کا شکار ہے، جن میں تفتیشی افسران کی کمی اور زیر التوا شکایات کا بڑا بوجھ شامل ہے۔
ذرائع کے مطابق، مجوزہ یونٹ صوبے میں آن لائن ہراسانی، مالیاتی فراڈ اور شناخت کی چوری جیسے سائبر جرائم کی تحقیقات اور روک تھام پر توجہ دے گا۔
ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) غلام نبی میمن نے بتایا کہ صوبائی پولیس نے محکمہ داخلہ کو خط لکھا ہے تاکہ وفاقی حکومت سے درخواست کی جا سکے کہ سندھ پولیس کو سائبر جرائم پر کارروائی کا مجاز ادارہ قرار دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ معاشرے میں سائبر جرائم تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور مجرم دہشت گردی کی مالی معاونت، منی لانڈرنگ، بھتہ خوری، ہیکنگ، سافٹ ویئر/ڈیٹا کی چوری، اور دھوکہ دہی، بدنامی اور ہراسانی جیسے چھوٹے جرائم کے لیے بھی سائبر اسپیس استعمال کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سائبر اسپیس کی گمنامی اور پولیس کی یہ صلاحیت کہ وہ انٹرنیٹ کے پیچھے چھپے مجرموں کا سراغ نہیں لگا پاتی، قانون کے مؤثر اثر کو کمزور کر رہی ہے، جس سے سائبر جرائم کی روک تھام اور تحقیقات مشکل ہو گئی ہے۔
آئی جی پی نے کہا کہ اس وقت این سی سی آئی اے ہی ملک کی واحد مجاز ایجنسی ہے جو سائبر جرائم کی تحقیقات کرتی ہے، لیکن اسے تفتیشی افسران کی کمی اور زیر التوا شکایات کے بڑے بوجھ جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ صورتِ حال ان کی تحقیقات کی موثر کارکردگی اور ٹھوس نتائج کے حصول میں رکاوٹ بن رہی ہے۔












لائیو ٹی وی