ڈان میڈیا گروپ کو سرکاری اشتہارات کی بندش پر ایچ آر سی پی کا شدید اظہار تشویش
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے ملک میں ’آزاد اور تنقیدی صحافت کے لیے تیزی سے کم ہوتی ہوئی گنجائش‘ پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے، جس میں ڈان میڈیا گروپ کو سرکاری اشتہارات کی بندش بھی شامل ہے۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب متعدد میڈیا تنظیموں نے ڈان میڈیا گروپ کے ٹی وی اور ریڈیو کو سرکاری اشتہارات کی غیر اعلانیہ بندش کی مذمت کی ہے، یہ پابندی اس سے قبل ڈان کے مرکزی اخبار کو اشتہارات سے محروم کرنے کے بعد عائد کی گئی تھی۔
ایچ آر سی پی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر منگل کو جاری بیان میں کہا، ’ایچ آر سی پی ملک میں آزاد اور تنقیدی خبر رسانی کے لیے تیزی سے کم ہوتی ہوئی گنجائش پر شدید تشویش کا اظہار کرتا ہے، جس میں ڈان میڈیا گروپ پر 13 ماہ سے جاری سرکاری اشتہارات کی پابندی بھی شامل ہے، جسے حال ہی میں ڈان نیوز اور سٹی ایف ایم 89 تک توسیع دی گئی ہے۔‘
کمیشن نے کہا، ’یہ امر ستم ظریفی سے کم نہیں ہے، ڈان کے بانی محمد علی جناح، آزادیٔ صحافت کے علمبردار تھے۔‘
ایچ آر سی پی کے مطابق، ریاستی اشتہارات جو عوامی وسائل پر مشتمل ہوتے ہیں، کو منتخب انداز میں روکنا تیزی سے ایک ’دباؤ ڈالنے کے ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، تاکہ میڈیا اداروں پر اثر انداز ہوا جا سکے، اداراتی فیصلوں کو بدلا جائے اور تنقیدی صحافت کو سزا دی جا سکے۔
بیان میں کہا گیا کہ ’ہم اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ اظہارِ رائے کی آزادی اور جمہوری احتساب وہاں زندہ نہیں رہ سکتے جہاں معاشی دباؤ کے ذریعے میڈیا کو تابع کرنے کی کوشش کی جائے۔‘
ایچ آر سی پی نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ایسی ’امتیازی پالیسیوں‘ کا خاتمہ کرے اور آزاد، خودمختار اور ذمہ دار صحافت کے لیے سازگار ماحول بحال کرے۔
گزشتہ ہفتے کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) نے کہا تھا کہ ڈان پاکستان کے معتبر ترین میڈیا اداروں میں شامل ہے اور اس کو سرکاری اشتہارات سے محروم کرنا ادارے کو مالی طور پر مفلوج کرنے کے مترادف ہے۔
آل پاکستان نیوزپیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) نے بھی ڈان میڈیا گروپ کے اداروں کو سرکاری اشتہارات کی بندش پر ’شدید مایوسی‘ کا اظہار کیا تھا۔
پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے) نے بھی ڈان میڈیا گروپ پر اشتہارات کی پابندی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہمیشہ ’اشتہارات کو میڈیا اور اظہارِ رائے کو کنٹرول کرنے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے‘ کی مخالفت کرتی آئی ہے۔
متعدد صحافتی تنظیموں پر مشتمل جوائنٹ ایکشن کمیٹی (جے اے سی) نے بھی اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سرکاری اشتہارات کو میڈیا اداروں پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
اس سے قبل رواں سال پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے اپنی ’اسلام آباد ڈیکلریشن‘ میں نشاندہی کی تھی کہ ڈان کو اکتوبر 2024 سے وفاقی اور پنجاب حکومت کی جانب سے اشتہارات سے محروم رکھا جا رہا ہے، جس کی وجہ اس کی ’پیشہ ورانہ اور تنقیدی رپورٹنگ اور اداریے‘ بتائے گئے تھے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ حکام نے ڈان کی رپورٹنگ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی ہو، نام نہاد ’ڈان لیکس‘ کے بعد اخبار کی ترسیل ملک کے بڑے حصوں، خصوصاً کینٹونمنٹ علاقوں میں، روک دی گئی تھی۔












لائیو ٹی وی