• KHI: Partly Cloudy 24.3°C
  • LHR: Partly Cloudy 18.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 15°C
  • KHI: Partly Cloudy 24.3°C
  • LHR: Partly Cloudy 18.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 15°C

اسلام آباد ہائیکورٹ کا جسٹس جہانگیری کو عہدے سے ہٹانے کا حکم، ڈگری تقرری کے وقت ’غیر معتبر‘ قرار

شائع December 18, 2025 اپ ڈیٹ December 18, 2025 04:51pm
ینچ نے جسٹس جہانگیری کو ہدایت دی کہ وہ ‘تقرری اور توثیق کے وقت غیر معتبر قانون کی ڈگری رکھنے’ کے باعث فوری طور پر عہدہ چھوڑ دیں. فائل فوٹو: ڈان نیوز
ینچ نے جسٹس جہانگیری کو ہدایت دی کہ وہ ‘تقرری اور توثیق کے وقت غیر معتبر قانون کی ڈگری رکھنے’ کے باعث فوری طور پر عہدہ چھوڑ دیں. فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو جج کے عہدے سے ہٹانے کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا کہ ان کی قانون کی ڈگری تقرری کے وقت ’غیر معتبر‘ تھی۔

چیف جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر اور جسٹس محمد اعظم خان پر مشتمل ڈویژن بینچ نے اس درخواست پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا، جس میں جسٹس جہانگیری کی قانون کی ڈگری اور بطور جج تقرری کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا گیا تھا۔

بینچ نے جسٹس جہانگیری کو ہدایت دی کہ وہ تقرری اور توثیق کے وقت غیر معتبر قانون کی ڈگری رکھنے کے باعث فوری طور پر عہدہ چھوڑ دیں۔ عدالت نے وزارتِ قانون کو بھی انہیں جج کے طور پر ڈی نوٹیفائی کرنے کی ہدایت کردی۔

یہ فیصلہ ایک روز بعد سامنے آیا جب جسٹس جہانگیری نے چیف جسٹس ڈوگر پر اپنے خلاف ’جانبدار‘ ہونے کا الزام لگایا تھا اور وفاقی آئینی عدالت سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس حالیہ فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کی تھی، جس کے تحت ان کی قانون کی ڈگری کو چیلنج کرنے والی درخواست سماعت کے لیے مقرر کی گئی تھی۔ اسی روز انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل جو ججوں کے خلاف بدانتظامی کے الزامات کی جانچ کا اعلیٰ فورم ہے، میں چیف جسٹس کے خلاف باضابطہ شکایت بھی دائر کی تھی۔

فیصلہ سنائے جانے سے قبل جامعہ کراچی (کے یو) کے رجسٹرار نے عدالت میں جسٹس جہانگیری کی قانون کی ڈگری سے متعلق ریکارڈ جمع کرایا۔ انہوں نے بتایا کہ کے یو سنڈیکیٹ نے یہ ڈگری ’غیر منصفانہ ذرائع سے حاصل کرنے‘ پر منسوخ کی تھی۔

رجسٹرار کے مطابق ’جسٹس جہانگیری کو 1988 میں امتحانی ہال میں نقل کرتے اور بدانتظامی پیدا کرتے ہوئے پایا گیا تھا‘ جس کے بعد انہیں 1992 تک امتحان دینے سے نااہل قرار دیا گیا۔ تاہم، ان کے بقول، اس فیصلے پر عمل کرنے کے بجائے جسٹس جہانگیری نے 1989 میں نام تبدیل کر کے امتحان دیا۔

انہوں نے مارکس شیٹس اور نتائج سے متعلق لاگ بھی عدالت میں پیش کیا تاکہ کے یو سنڈیکیٹ کے فیصلے کو درست ثابت کیا جا سکے۔

دورانِ سماعت، جسٹس جہانگیری کے وکیل ایڈووکیٹ محمد اکرم شیخ نے بینچ کی سماعت پر اعتراض اٹھایا۔ ان کا مؤقف تھا کہ ایک ایسا جج جو خود قانونی کارروائی کا سامنا کر رہا ہو، وہ کسی دوسرے جج سے متعلق درخواست کی سماعت نہیں کر سکتا، جس نے اس کی تقرری کو چیلنج کیا ہو۔

رواں سال جولائی میں جسٹس جہانگیری نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چار دیگر ججوں کے ساتھ مل کر سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے اس فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی، جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں سینیارٹی برقرار رکھتے ہوئے جسٹس ڈوگر کو سرفہرست قرار دیا گیا تھا۔

ان پانچ ججوں نے سپریم کورٹ سے درخواست کی تھی کہ آرٹیکل 194 کے تحت نئے حلف اٹھانے تک جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس محمد آصف کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج تصور نہ کیا جائے۔

یہ انٹرا کورٹ اپیل 27ویں آئینی ترمیم کے تحت وفاقی آئینی عدالت کے قیام کے بعد وہاں مقرر ہوئی، تاہم عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کر دی گئی۔ آج شیخ اکرم کے دلائل بظاہر اسی معاملے کی طرف اشارہ تھے۔

انہوں نے یہ بھی مؤقف اختیار کیا کہ سندھ ہائی کورٹ نے اس معاملے میں حکمِ امتناع جاری کیا ہوا ہے، اس لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کو اس کیس کی سماعت نہیں کرنی چاہیے۔ یہ دراصل سندھ ہائی کورٹ کے اس حکم کی طرف اشارہ تھا جس کے تحت کے یو سنڈیکیٹ کی جانب سے جسٹس جہانگیری کی ڈگری منسوخ کرنے کے فیصلے کو معطل کیا گیا تھا۔

جسٹس طارق جہانگیری کے ایک اور وکیل بیرسٹر صلاح الدین احمد نے عدالت سے جواب جمع کرانے کے لیے مزید وقت مانگا۔

دوسری جانب درخواست گزار وکیل میاں داؤد نے الزام لگایا کہ جسٹس جہانگیری نے سندھ ہائی کورٹ کے حکمِ امتناع کا ’غلط استعمال‘ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنا نام صاف کرنے کے بجائے جج درخواستیں دائر کر رہے ہیں اور اپنے چیف جسٹس کو متنازع بنا رہے ہیں۔

ان دلائل کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا اور بعدازاں جسٹس جہانگیری کو عہدے سے ہٹانے کا حکم جاری کر دیا۔

کیس کا پس منظر

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی مبینہ جعلی ڈگری سے متعلق ایک شکایت جولائی 2023 میں سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرائی گئی تھی جبکہ ان کی تقرری کو چیلنج کرنے والی ایک درخواست رواں برس اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی تھی، معاملہ اُس خط کے گرد گھومتا ہے جو پچھلے سال سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگا تھا، جس میں مبینہ طور پر کراچی یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات کی طرف سے جج کی قانون کی ڈگری کا ذکر تھا۔

ایک غیر معمولی پیش رفت میں رواں سال 16 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر اور جسٹس محمد اعظم خان پر مشتمل ڈویژن بینچ نے میاں داؤد ایڈووکیٹ کی جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکنے کی درخواست پر سماعت کے بعد تحریری حکم نامہ جاری کردیا تھا۔

19 ستمبر 2025 کو جسٹس طارق محمود جہانگیری نے سپریم کورٹ میں خود پیش ہو کر اس فیصلے کو چیلنج کیا تھا، انہوں نے استدعا کی تھی بطور جج کام سے روکنے کا حکم کالعدم اور معطل کیا جائے اور ڈویژن بینچ کو مزید کارروائی سے روکا جائے۔

دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری منسوخی کے خلاف 7 درخواستیں عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کردی تھیں۔

بعد ازاں 2 اکتوبر 2025 کو جسٹس طارق محمود جہانگیری نے سپریم کورٹ میں سندھ ہائی کورٹ کے 25 ستمبر کے اس حکم کو چیلنج کردیا تھا۔

1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 18 دسمبر 2025
کارٹون : 17 دسمبر 2025