• KHI: Clear 23.1°C
  • LHR: Partly Cloudy 14.7°C
  • ISB: Cloudy 13.5°C
  • KHI: Clear 23.1°C
  • LHR: Partly Cloudy 14.7°C
  • ISB: Cloudy 13.5°C

سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید نے فوجی عدالت کی سزا کے خلاف اپیل دائر کردی

شائع December 29, 2025 اپ ڈیٹ December 29, 2025 04:04pm

اسلام آباد: سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے وکیل نے ڈان کو تصدیق کی ہے کہ فوجی عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا کے خلاف اپیل دائر کر دی گئی ہے۔ وکیل میاں علی اشفاق نے اپیل دائر ہونے کی تصدیق کی تاہم اس کی تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔

فیض حمید کو 11 دسمبر کو فوجی عدالت نے رازداری کے قوانین کی خلاف ورزی، سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے، اختیارات کے ناجائز استعمال اور دوسروں کو نقصان پہنچانے سے متعلق چار الزامات میں قصوروار قرار دیتے ہوئے 14 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی تھی۔

پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعہ 133 بی کے تحت سزا اور فیصلہ سنائے جانے کے بعد انہیں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کے لیے 40 دن کی مہلت حاصل تھی۔

اپیل پہلے ایک کورٹ آف اپیلز میں سنی جاتی ہے، جس کی سربراہی میجر جنرل یا اس سے اعلیٰ رینک کا افسر کرتا ہے، جسے آرمی چیف نامزد کرتے ہیں۔ بعد ازاں آرمی چیف کو سزا کی توثیق، ترمیم یا منسوخی کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔

تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ فوجی اپیل کا عمل کئی برسوں پر محیط رہا ہے۔

فیض حمید کی سزا

رواں ماہ 11 دسمبر 2025 کو سزا سناتے ہوئے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے بیان میں کہا تھا کہ فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی 12 اگست 2024 کو پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت شروع کی گئی، جو 15 ماہ سے زائد عرصے پر محیط رہی۔ طویل قانونی کارروائی کے بعد ملزم کو تمام الزامات میں قصوروار قرار دے کر 14 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی گئی۔

آئی ایس پی آر کے مطابق سزا یافتہ افسر کی سیاسی عناصر کے ساتھ مل کر سیاسی انتشار اور عدم استحکام پیدا کرنے میں مبینہ شمولیت اور بعض دیگر معاملات کو الگ سے دیکھا جا رہا ہے۔ آئی ایس پی آر کے بیان میں انہیں ’مسٹر فیض حمید، سابق لیفٹیننٹ جنرل‘ کہا گیا جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ شاید ان کا فوجی رینک واپس لے لیا گیا ہے، تاہم آئی ایس پی آر نے اس بارے میں واضح طور پر کوئی تصدیق نہیں کی۔

پس منظر

فیض حمید نومبر 2022 میں ریٹائر ہوئے تھے اور وہ پاکستان کی تاریخ میں پہلے سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور دوسرے تین ستارہ جنرل ہیں جنہیں مکمل فوجی ٹرائل کے بعد قید کی سزا سنائی گئی۔

یہ کیس پراپرٹی ڈویلپر کنور معز خان کے الزامات سے شروع ہوا، جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ 2017 میں اس وقت کے میجر جنرل فیض حمید اور دو دیگر افسران نے ان کے گھر اور دفاتر پر چھاپہ مارا، قیمتی سامان ضبط کیا اور 4 کروڑ روپے کی ادائیگی اور ایک نجی ٹی وی چینل کی مالی معاونت پر مجبور کیا۔ یہ معاملہ 2023 میں دوبارہ سامنے آیا جب سپریم کورٹ نے شکایت کنندہ کو وزارتِ دفاع کے ذریعے قانونی چارہ جوئی کا مشورہ دیا، جس کے بعد باضابطہ فوجی انکوائری شروع ہوئی۔

اگرچہ آرمی ایکٹ عام طور پر ریٹائرمنٹ کے چھ ماہ کے اندر کارروائی کی اجازت دیتا ہے تاہم اس کیس میں دفعہ 2 ڈی کے تحت فوجی دائرہ اختیار بڑھایا گیا، جبکہ دفعات 31 اور 40 کے تحت بغاوت، نافرمانی یا جائیداد سے متعلق دھوکا دہی جیسے جرائم میں وقت کی قید کے بغیر کورٹ مارشل کی اجازت موجود ہے۔

اپریل 2024 میں کورٹ آف انکوائری نے کارروائی کی سفارش کی، جس کے بعد 12 اگست کو فیض حمید کو حراست میں لیا گیا۔ بعد ازاں انہیں تفصیلی چارج شیٹ دی گئی جس میں ریٹائرمنٹ کے بعد سیاسی سرگرمیاں، آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی خلاف ورزیاں، 2017 کے چھاپے سمیت اختیارات کا ناجائز استعمال اور کنور معز کے خلاف مبینہ جبر کے ذریعے مالی نقصان پہنچانے کے الزامات شامل تھے۔

تحقیقات کا دائرہ دیگر ریٹائرڈ افسران تک بھی بڑھایا گیا، جن میں بریگیڈیئر ریٹائرڈ غفار، بریگیڈیئر ریٹائرڈ نعیم فخر اور کرنل ریٹائرڈ آصف شامل ہیں تاہم فیصلے میں ان کے بارے میں فوجی عدالت کے حتمی نتائج بیان نہیں کیے گئے۔

1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 29 دسمبر 2025
کارٹون : 28 دسمبر 2025