ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، فائل تصویربشکریہ پی اے ایس ایس پی
ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، فائل تصویربشکریہ پی اے ایس ایس پی

نوعمر سلیم الزماں صدیقی نے اپنی ابتدائی عمر میں طلسم ہوشربا اور داستانِ امیر حمزہ جیسی کتابوں کا مطالعہ کیا اور فطرت پر غور کرنا ان کے مشاغل میں شامل تھا۔ شاید اسی وجہ سے ان میں فکری وسعت پیدا ہوئی۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی ، مولوی اسماعیل میرٹھی کی پانچ بنیادی کتب نے اردو سکھائی تو آمد نامہ نے فارسی سے روشناس کرایا۔

انہیں نشاۃ الثانیہ کا آخری نمائیندہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ وہ  بہ یک وقت ممتازکیمیا داں، فلسفی، مصور، ادبی ناقد اور سائنسی بصیرت کے حامل تھے۔

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی 19 اکتوبر 1897 کو  انڈیا کی ریاست یوپی کے ضلعے بارہ بنکی کے علاقے صبیہہ میں پیدا ہوئے۔ لکھنوء کی علمی فضا کو انہوں نے جذب کیا اور فارسی اور فلسفے میں بی اے کیا۔ تاہم ان کی سوانح میں مصنف ایس ایم اسماعیل نے ان کی تاریخِ پیدائش 17 اکتوبر تحریر کی ہے۔

پہلی جنگ عظیم کے عروج میں وہ میڈیسن پڑھنے کیلئے یونیورسٹی کالج لندن میں داخل ہوئے۔ ابھی پڑھائی جاری تھی کہ ان کے بڑے بھائی چوہدری خلیق الزماں کا پیغام ملا کے فوری طور پر جرمنی چلے جاؤ اور وہاں کیمسٹری پڑھو کیونکہ اس شعبے کیلئے جرمنی بہترین جگہ ہے۔'

مصور اور سائنسداں

اس کے بعد نو عمر سلیم الزماں 1921 میں کیمیا کی تعلیم کیلئے جرمنی گئے جہاں انہوں نے یونیورسٹی آف فرینکفرٹ میں داخلہ لیا۔

لیبارٹری میں طویل وقتوں میں ہونے والے کیمیائی عمل کے ساتھ ساتھ وہ  چارکول، پینسل اور رنگوں سے بھی کھیلتے رہے اور اس دوران انہوں نے پینٹنگز کے عمدہ نمونے بنائے۔

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی اولین پینٹنگز کی پہلی نمائش فرینکفرٹ میں ہوئی جہاں ان کے فن پارے مشہور آرٹسٹ ایمل نالڈے اور میولر کے ساتھ رکھے گئے۔ اگلے دن کے مشہور اخبارات نے ان کے کام کو سراہا اور تعریفی مضامین لکھے۔

ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں موجود ان کی دو اہم تصاویر، دائیں جانب ان کی وہ پینٹنگ نمایاں ہے جس میں انہوں نے اپنی والدہ کی تصویر بنائی تھی۔ تصویر بشکریہ ہر جیاوے
ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں موجود ان کی دو اہم تصاویر، دائیں جانب ان کی وہ پینٹنگ نمایاں ہے جس میں انہوں نے اپنی والدہ کی تصویر بنائی تھی۔ تصویر بشکریہ ہر جیاوے

ان کی پینٹنگز کی دوسری نمائش 1927 میں یوزیلی گیلری ، فرینکفرٹ میں ہوئی جس کےبدلے انہیں ایک ہزار گولڈ مارک ملے اور یہ ان کی زندگی کی پہلی کمائی تھی۔

یونیورسٹی میں وہ عموماً صبح اٹھ سے شام آٹھ بجے تک کام میں مصروف رہتے اور اکثر اوقات لیب میں ہی سوجایا کرتے تھے۔ 1927 میں انہوں نے مشہور سائنسدان جیولیئس وان براؤن کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

عین اسی دوران جنگ کے بادل منڈلارہے تھے اور جرمنی میں مہنگائی اور افراطِ زر کا راج تھا ۔ اس موقع پر ہندوستان کے ایک عظیم طبیب اور سماجی کارکن حکیم اجمل خان ہر ماہ باقاعدگی سے انہیں چار سو روپے بھجواتے رہے۔ اس قرض کو سلیم الزماں نے کچھ اسطرح اتارا کہ انہوں نے اپنی دریافتوں کو اجمل خان کے نام سے موسوم کردیا۔

نیم، راوولفیا اور ہولرینا

اپنے طویل کیریئر میں انہوں نے تین سے زائد ریسرچ پیپرز لکھے اور چالیس سے زائد پیٹنٹس اپنے نام کیں جو ذیادہ تر نیچرل پراڈکٹ کیمسٹری سے تعلق رکھتی ہیں۔

ڈاکٹر صدیقی کا ایک اہم کام چاند بوٹی یا راوولفیا سرپنٹینا نامی پودے پر ہے جو پاک و ہند میں عام پایا جاتا ہے ۔ ایک عرصے سے اسے مختلف امراض کے علاج میں استعمال کیا جارہا ہے۔

یورپ سے ہندوستان واپسی پر انہوں نے حکیم اجمل خان کی جانب سے قائم کردہ ایک نئے طبی کالج کی ذمے داریاں سنبھالیں جس کا کام آیورویدک اور یونانی طب پر تحقیق کرنا تھی۔ سربراہ کی حیثیت سے ڈاکٹر صدیقی نے راوولفیا سرپنٹینا پودے سے نو اہم الکلائیڈز کشید کئے۔

الکلائیڈز وہ کیمیکل ہوتے ہیں جو پودوں اور درختوں میں عام پائے جاتے ہیں اور انہیں علاج کیلئے اضافہ کیا جاتا ہے۔ مارفین، کونین اور کیفین وغیرہ مشہور الکلائیڈز ہیں ۔

ڈاکٹر صدیقی نے اپنے الکلائیڈز کا نام اجملین، اجملنائن، اجملا سائن، آئسواجملین اور دیگر الکلائیڈز نکالے اور ان کے نام حکیم اجمل خان کے نام پر رکھے۔

سلیم الزماں صدیقی کے ان الکلائیڈز میں دنیا نے امراضِ قلب، بلڈ پریشر اور دماغی بیماریوں سے شفا پائی ۔ کئی کمپنیوں نے اسے دوا میں ڈھال کر لاکھوں کروڑوں روپے کمائے۔

اسی طرح انہوں نے پیچش کے مرض کا ایک علاج یہ بھی نکالا کہ انہوں نے ایک پودے ہولرینا ڈائسینٹریکا سے اہم کمپاؤنڈ کشید کئے۔ اسی کے اعتراف میں انہیں 1966 میں اس وقت کے چیکوسلواکیہ کی پراگ یونیورسٹی میں ' فادر آف ہولرینا کیمسٹری' کا خطاب دیا گیا۔ انہوں نے اس موضوع پر تقریباً 18 ریسرچ پیپرز تحریر کئے۔

اس کے علاوہ انہوں نے نیم کے درخت پر قابلِ قدر کام کیا جسے ہمارے دیہاتی کلچر میں دواؤں کی فیکٹری کہا جاتا ہے۔ انہوں نے نیم سے تین اہم ترین اجزا حاصل کئے جو مختلف امراض میں استعمال ہورہے ہیں۔

ڈاکٹر صدیقی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ کیمیا میں عملی ہاتھ رکھتے تھے وہ پودوں سے مفید کیمیکل حاصل کرنے پر کمال رکھتے تھے۔ تصویر بشکریہ ہمدر فاؤنڈیشن
ڈاکٹر صدیقی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ کیمیا میں عملی ہاتھ رکھتے تھے وہ پودوں سے مفید کیمیکل حاصل کرنے پر کمال رکھتے تھے۔ تصویر بشکریہ ہمدر فاؤنڈیشن

الیکشن سیاہی کا قصہ

جب ڈاکٹر سلیم الزماں 1940 میں انڈین کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ڈویلمپنٹ ( آئ سی ایس آر) نئی کلکتہ کے سربراہ تھے تو اس وقت ڈاکٹر شانتی سروپ بھٹناگر انچارج تھے اور انہوں نے ڈاکٹر صدیقی کو الیکشن میں جعلی ووٹنگ کو روکنے کیلئے الیکشن انک بنانے کو کہا۔

اس کے لئے ایک نمونہ ان کے پاس آیا جو رنگ چھوڑنے میں بہت وقت لگارہا تھا اس میں موجود سلور کلورائیڈ کو سلیم الزماں نے سلور برومائیڈ سے بدلا اور اسی شخص کے ہاتھوں واپس کردیا جو یہ نمونہ لے کر آیا تھا۔ بھٹناگر اور ان کے آٹھ ساتھیوں نے اسے آزمایا اور فوراً رنگ آگیا۔

الیکشن انک کا یہی فارمولہ آج بھی پاک و ہند میں استعمال ہورہا ہے۔

پاکستان میں سائنس

پاکستان کی آزادی کے وقت وہ آئی سی ایس آر سے وابستہ تھے جہاں تقریباً چالیس طلبا و طالبات ان کی زیرِ نگرانی پی ایچ ڈی کررہے تھے۔ پھر دہلی میں ہندو مسلم فسادات بھڑک اُٹھے ۔ اس موقع پر ان کے ہندو طالبعلم ان کی حفاظت کرتے رہے اور خصوصاً گھر سے ادارے تک چھوڑنے آتے رہے۔

پھر 1948 میں انہیں وزیرِ اعظم ہندوستان، جواہر لعل نہرو نے طلب کیا اور وزیرِ اعظم پاکستان کا وہ خط دکھایا جس میں انہوں نے ڈاکٹر صدیقی کی خدمات پاکستان کیلئے طلب کی تھیں۔ ڈاکٹر صدیقی کو ہچکچاہٹ کا شکار دیکھ کر خود نہرو نے انہیں پاکستان جانے کا مشورہ دیا۔

وہ 1951 پاکستان آگئے اور پاکستان کونسل فار سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ ( پی سی ایس آئی آر) ۔ یہ جدید ترین تجربہ گاہیں لاہور، ڈھاکہ، راجشاہی، چٹاگانگ اور پشاور میں قائم کی گئیں۔

انہیں پاکستان میں تحقیق و ترقی کے بانیوں میں سے ایک شمار کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے 1961 میں نیشنل سائنس کونسل قائم کی اور اس کے پہلے سربراہ مقرر ہوئے۔ اسی سال وہ رائل سوسائٹی کے فیلو منتخب ہوئے۔ یہ اعزاز اب بھی بہت کم مسلمان ممالک کو حاصل ہے۔

ان کے دیگر کارناموں میں سے دو کام معاشی لحاظ سے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک کوئلے سے سلفر کا خاتمہ ہے جس کی بائی پراڈکٹ کے طور پر ایک طاقتور کیڑے مار دوا تیار کی جبکہ کالا باغ سے باکفایت انداز میں لوہا حاصل کرنے کیلئے طریقہ کار تیار کیا۔

پاکستان کے ممتاز ریاضی دان اور تعلیمی ماہر، ڈاکٹر رضی الدین صدیقی نے ایک جگہ لکھا ہے،

' جب 1965 میں پاک و ہند جنگ چھڑی تو دفاعی ضروریات کیلئے فوری طور پر کچھ اشیا اور پروسیس درکار تھے تاکہ ہتھیاروں اور مشینری کو چلایا جاسکے۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے اس اہم موقع پر فوری انتظامات کئے اور پی سی ایس آئی آر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ قومی مقصد کیلئے ان کا یہ کام نہایت اہمیت رکھتا ہے۔'

ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی 1966 میں ریٹائر ہوگئے اور اس کے اگلے ہی دن جامعہ کراچی میں پوسٹ گریجویٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ  سے وابستہ ہوگئے۔ بعد میں اسے حسین ابراہیم جمال ( ایچ ای جے) ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری کا نام دیا گیا۔ اس کیلئے حسین ابراہیم جمال فاؤنڈیشن نے پچاس لاکھ روپے کی رقم کا عطیہ دیا تاکہ عمارت تعمیر کی جاسکے اور اس کے اخراجات چلائے جاتے رہیں۔

کراچی یونیورسٹی میں واقع ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری۔ تصویر پشکریہ ہر جیاوے
کراچی یونیورسٹی میں واقع ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری۔ تصویر پشکریہ ہر جیاوے

 اب یہ ادارہ پاکستان میں سائنسی تحقیق خصوصاً کیمیا کے اہم ترین اداروں میں شمار ہوتا ہے اور بین الاقوامی شہرت رکھتا ہے۔  پورے پاکستان سے ہرسال جتنے پی ایچ ڈی نکلتے ہیں اس میں سے نصف کا تعلق اس ادارے سے ہوتا ہے۔ یہاں کئی تحقیقی گروپس علم کی سرحدوں پر تلاش و تحقیق کا کام کررہے ہیں۔ ان کے کام کو بین الاقوامی پذیرائی مل رہی ہے بلکہ بین الاقوامی پیٹنٹس بھی حاصل ہورہی ہے۔

سادہ زندگی اور بلند خیالی ڈاکٹر صدیقی کی زندگی کا راز رہی ۔ وہ نوے سال کی عمر تک بھی اپنی لیب میں کھڑے ہوکر کام کرتے رہے ۔ انہیں شہرت اور دولت سے کوئی لگاؤ نہ تھا۔

ڈاکٹر صدیقی کا آٹو گراف۔ تصویر مصنف
ڈاکٹر صدیقی کا آٹو گراف۔ تصویر مصنف

 اپنے بچپن میں وہ اکثر ایک بھنورے ، گبریلے کا مشاہدہ کرتے رہے۔ یہ بھنورا مٹی اور غلاظت سے بھری ایک گولی سی بناتا ہے اور اس دھکیلتا آگے بڑھتا ہے۔ یہ گولی اس کی کل کائنات ہوتی ہے۔ نو عمر سلیم نے سوچا کہ وہ اپنی زندگی کو اتنی معمولی ضروریات پر صرف نہیں کریں گے اور انسانیت کیلئے کوئی بامقصد کام کریں گے۔

اسی سوچ کی بنا پر انہوں نے ہندوستان اور پاکستان میں کئی سائنسی ادارے قائم کئے لیکن آخر دم تک اپنا ذاتی مکان نہ بناسکے۔

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی ، ستانوے سال کی عمر میں 14 اپریل 1994 کو وہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔

تبصرے (1) بند ہیں

سہیل احمد صدیقی Oct 21, 2013 05:38am
درست ترجمہ: ڈاکٹر صدیقی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ کیمیا میں عملی مہارت کے حامل تھے.............''میں" کمال رکھتے تھے درست!