حکیم اللہ محسود— فائل فوٹو۔
حکیم اللہ محسود— فائل فوٹو۔

پاکستان کے ایک انتہائی مطلوب عسکریت پسند کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد پاکستانی طالبان میں صدیوں پرانی دشمنیاں ابھرنے لگی ہیں جس کے باعث عسکریت پسندی پہلے سے زیادہ ناقابل فہم اور پر تشدد ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

حکیم اللہ محسود کی رواں ماہ ہلاکت کے بعد گروپ میں طاقت حاصل کرنے کے لیے ایک نئی رسہ کشی کا آغاز ہوگیا ہے جو کہ 2014ء میں افغانستان سے امریکی انخلا سے قبل خطے کے لیے خطرناک صورت حال ہے۔

جب گزشتہ ہفتے شوریٰ کے ایک اجلاس کے دوران فضل اللہ کو نیا ٹی ٹی پی کمانڈر مقرر کیا گیا تو وہاں موجود حریف گروہ کے متعدد کمانڈر اٹھ کر چلے گئے۔

شمالی وزیرستان میں ہونے والے اس اجلاس میں شرکت کرنے والے ایک کمانڈر کا کہنا تھا 'جب فضل اللہ کے نام کا اعلان کیا گیا تو وہ باہر یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ طالبان کی کمان برباد ہوگئی۔'

تاہم شوریٰ میں موجود دیگر افراد نے نئے سخت گیر سربراہ کی جانب اپنی وفاداری کا اظہار کیا اور حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے حوالے سے منصوبہ بندی میں شامل رہے۔

طالبان افسر نے کہا 'یہ امریکی کٹھ پتلی پاکستان حکومت سے ہماری جنگ کا آغاز ہے۔'

سینئر کمانڈروں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا 'جو افغانستان سے سویت یونین کو نکل جانے پر مجبور کرسکتے ہیں، وہ پاکستان توڑنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔'

پاکستانی طالبان ہمیشہ سے ہی تقسیم رہے ہیں جو صرف اپنے شدت پسندانہ خیالات اور حکومت سے نفرت کے جذبات کے باعث یکجا ہوئے۔

یہ گروہ افغانستان میں موجود طالبان اتحادیوں کے مقابلے میں خود مختار انداز میں کارروائیاں کرتا ہے جو کہ امریکی فوج سے مقابلہ کررہے ہیں۔

تاہم طاقتور محسود قبیلے کے رکن حکیم اللہ کی ہلاکت اور وادی سوات سے تعلق رکھنے والے فضل اللہ کے سربراہ مقرر ہونے سے تصویر کا رخ تبدیل ہوگیا ہے۔

حکیم اللہ کی کمان میں ٹی ٹی پی پاکستانی حکومت سے امن مذاکرات کے لیے تیار تھی تاہم کسی قسم کے معنی خیز مذاکرات شروع نہیں ہوسکے تھے۔

فضل اللہ نے سربراہ مقرر کیے جانے کے بعد اعلان کیا کہ حکومت کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہوسکتے جبکہ پنجاب کو نشانہ بنانے کی دھمکی بھی دی گئی ہے جو کہ وزیراعظم نواز شریف کا سیاسی مرکز ہے۔

پاکستانی تھنک ٹینک فاٹا ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر سیف اللہ محسود کے مطابق 'محسود نہ صرف اس تقرری پر ناخوش ہیں بلکہ کچھ اطلاعات کے مطابق گروہ میں سنجیدہ قسم کی اندرونی لڑائی جاری ہے جو کہ مستقبل قریب میں منظر عام پر آسکتی ہے۔'

سیف اللہ نے کہا 'میرے خیال میں ابھی ٹی ٹی پی میں ابھی امن مذاکرات کا مخالف گروہ جیت گیا ہے اور اسی وجہ سے یہ تقرری ہوئی۔'

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں