• KHI: Clear 18.7°C
  • LHR: Cloudy 11.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.8°C
  • KHI: Clear 18.7°C
  • LHR: Cloudy 11.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.8°C

کوٹھی اور برج

شائع October 2, 2012

ریل کی سیٹی

ہندوستان کی سر زمین پہ سولہ اپریل ۱۸۵۳ کے دن پہلی بار ریل چلی تھی۔ جس طرح پل بنانے والے نے دریا کے اس پار کا سچ اس پار کے حوالے کیا ، اسی طرح ریل کے انجن نے فاصلوں کو نیا مفہوم عطا کیا۔ اباسین ایکسپریس ، کلکتہ میل اور خیبر میل صرف ریل گاڑیوں کے نام نہیں بلکہ ہجر، فراق اور وصل کے روشن استعارے تھے۔

اب جب باؤ ٹرین جل چکی ہے ا ور شالیمار ایکسپریس بھی مغلپورہ ورکشاپ کے مرقد میں ہے، میرے ذہن کے لوکوموٹیو شید میں کچھ یادیں بار بار آگے پیچھے شنٹ کر رہی ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میں نے ریل میں بیٹھ کر تو کبھی دروازے میں کھڑے ہو کر خود سے کی ہیں۔وائی فائی اور کلاؤڈ کے اس دور میں، میں امید کرتا ہوں میرے یہ مکالمے آپ کو پسند آئیں گے۔


تصویری خاکہ ۔ — ماہ جبیں منکانی / ڈان۔ کام

وزیرآباد ایک عجیب سا شہر ہے۔ آج کل کے موسموں میں سارے دن کی دوڑ دھوپ کے بعد جب ہر جگہ شام خالی ہونا شروع ہوتی ہے تب بھی زندگی کی آہنگ سے بھرپور یہ شہر ایک لمحے کو اداس نہیں ہوتا۔

ضلع کچہری کے عین سامنے ، سنگ مرمر کے ایک تختے پہ عارف شہید روڈ کے اشارے ملتے ہیں ۔ اس سڑک پہ چند سو میٹر چلیں تو سامنے کو ٹھی شیخ نیاز احمد واقع ہے۔برطانوی راج کی نشانیوں کی مانند ، 1929 میں بننے والی اس عمارت کا اولین تاثر مبہوت کن ہے۔

بیسویں صدی کی ابتدائی دہائی میں برصغیر میں چمڑے کے دو کارخانے ( وزیرآباد اور کانپور ) ہوا کرتے تھے۔ شیخ نیاز احمد ، ان میں سے ایک کارخانے وزیرآباد ٹینری کے مالک تھے۔ تجارت، صنعت اور سخاوت کے علاوہ آپ طب میں بھی مہارت رکھتے تھے۔

ذکر کی کثرت کے سبب ، جب بھی آپ کی سواری گھر سے نکلتی تو ہندو اور مسلمان آپ کو روک کر دم، تعویز اور دوا کی درخواست کیا کرتے تھے ۔

گھر کیا ہے ، وقت ہے کہ رک گیا ہے۔ چمنیاں وہی، نعمت خانہ وہی، وکٹورین ڈرایؤ وے بھی ویسا اور لمبے لمبے برآمدے بھی ویسے ہی۔

مرکزی دروازے سے اندر آتے ہی درجہء حرارت میں ایک واضح فرق محسوس ہوتا ہے ۔ اونچی چھتوں اور لمبی راہداریوں والے برآمدے دلآویز ہیں ۔ چھتوں سے آویزاں لمبے لمبے پنکھوں کی وجہ سے درودیوار، ائیر کنڈیشن کی خاموش خنکی سے فی الحال نا آشنا ہے ۔اسی گھر میں لیفٹیننٹ عارف کی ولادت ہوئی ۔ 1971ء کے فرید پور (بنگلہ دیش) میں جوانسال لیفٹیننٹ عارف ، اپنے آبا کا پاکستان سنبھالتے سنبھالتے کسی ایسے مشرقی پاکستانی کی گولی کا نشانہ بنا جو اپنے دادا کا بنگال سنبھال رہا تھا۔

اچھے وقتوں میں کوٹھی ، شہر سے ذرا پرے نظام آباد کو جانے والے راستے پر بنائی گئی تھی مگر آبادی کے عفریت نے آہستہ آہستہ اس کے ارد گرد بھی عمارتوں کا جنگل بن دیا ہے ۔

یہی نظام آباد وزیر آباد کا آخری اسٹیشن ہے۔ شہر کی دوسری طرف ایک اور رہائش گاہ ہے، جسے لوگ مثمن برج کہتے ہیں۔

مثمن فارسی میں آٹھ کو کہتے ہیں ۔ ستاون کنال پہ محیط اس چار دیواری میں یوں تو کئی عمارتیں ہیں مگر دو نوں داخلی دروازوں پہ چار چار برج ہیں۔ انہی برجوں کے طفیل اس عمارت کا نام مثمن برج رکھا گیا۔ اس برج کو علم الدین نامی شاہجہاں کے وزیر نے تعمیر کروایا تھا۔برج کی تجویز، نوروز کے جشن کے موقع پہ جہانگیر کو پیش کی گئی اور تعمیر شاہجہاں کے دور میں 1639  میں مکمل ہوئی۔ مغلوں کی بنائی ہوئی تمام عمارتوں کی طرح اس عمارت میں بھی روش، تختے اور باغ ہیں۔

مغلوں کے بعد سکھوں کا دور آیا تو یہ فوج کا ہیڈکوارٹر بن گیا۔ محل کے مرکزی دروازے پر اطالوی جرنیل ابو طویلہ کے ہاتھ سے تحریر فرمان ابھی تک ثبت ہے۔آزادی کے اس کھیل کو راجوڑی کے جرال راجوں نے کس طرح کھیلا، اب نہ کوئی ان سے پوچھتا ہے اور نہ یہ کسی کو بتاتے ہیں۔

کوئی اظہر اللہ خان تھے جو رنجیت سنگھ اور کشمیر کے درمیان حائل ہو گئے ۔ انہیں صلح کی غرض سے شاہی قلعے میں بلا کر قید رکھا گیا مگر انہوں نے معافی نہیں مانگی اور بعد ازاں وہیں جان دے دی۔

سکھوں کے بعد جب انگریز اس جگہ کے مالک ٹھہرے تو فیصلہ ہوا کہ ان راجوں کو راجوڑی میں نہیں بسنے دیا جائے گا۔ امرتسر کے معاہدے کی رو سے انہیں چار جاگیریں پیش ہوئیں۔

وزیر آباد کا مثمن برج، پٹھان کوٹ کا مثمن برج، روات کا قلعہ اور شیخو پورہ کا ہرن مینار۔ خاندان کے بڑے بوڑھے سر جوڑ کر بیٹھے کہ کدھر جائیں۔

پٹھان کوٹ کے لوگ کرخت ، شیخو پورہ ابھی تک شیخو کا جنگل، جس میں منس راج کے بین سنائی دیں ، روات والوں کی بولی نوکیلی سو قرعہ آخر کار وزیر آباد کے نام نکلا۔

یہ جگہ چونکہ راجوڑی کے قریب تر تھی لہٰذا چھ ہزار سونے کی اشرفیوں کے عوض 1855 میں مثمن برج خرید لیا گیا ۔

سات سو سال کا راج پاٹ چھوڑ کر یہ لوگ مثمن برج میں آ بسے۔ یادوں کی کھونٹیوں پہ بہت سے چھوٹے چھوٹے اور معمولی مگر تکلیف دہ واقعات رہ گئے۔ کئی سال تک مثمن برج میں پینے کا پانی تک کشمیر سے آ تا تھا پھر آہستہ آہستہ یہ لوگ اس شہر کے ہو گئے۔برج میں اب دو خاندان آباد ہیں ایک ٹھاکر اور دوسرے راجہ۔ مہمانوں کی فہرست میں البتہ قائداعظم اور عمران خان شامل ہیں۔

محل کے صرف برج پرانے نہیں ، چھوٹی اینٹ کے محراب دار دروازوں کے پیچھے ایک پرانی روح بھی سانس لیتی ہے۔

برج میں مہاراجہ کا ایک کمرہ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہا کرتا تھا، سنبھالنے والوں نے کمرے کو ویسے ہی سنبھال رکھا ہے جیسے ابھی بگل بجے گا اور مہا راجہ برج میں داخل ہو کر سیدھا اپنے کمرے میں آئے گا۔جس طرح اس کمرے میں بہت سے لمحے قید ہیں، اسی طرح راجہ عثمان اللہ خان میں بھی کئی دہائیاں بند ہیں۔ خدا معلوم وکیل اچھے ہیں یا صنعت کار، مگر باتوں سے دونوں نہیں لگتے۔

وہ تاریخ بتا رہے تھے اور میں دیکھ رہا تھا کہ وقت کی گرد کا بالوں کی سفیدی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

مثمن برج کا یہ آخری برج ، کبھی ترک زادے کی طرح جہانگیر کا وقائع نگار بن جاتا اور کبھی علم الدین وزیر کے ایسے، مثمن برج کی تعمیر پہ مامور مزدوروں کو ہدایات دیتا نظر آتا ۔ کبھی رنجیت سنگھ کے ساتھ فقیر نور الدین میں

عثمان اللہ خان کی جھلک نظر آتی تو کبھی ابو طویلہ اور ونچورا کے معرکوں پہ بحث میں یہ تیسرا جرنیل دکھائی دیتا ، پھر راجہ اظہر اللہ خان کی صورت رنجیت سنگھ کو انکار کرتا اور پھر راجہ ظفر اللہ خان کی طرح مثمن برج کے در ودیوار کو دیکھ کر راجوڑی کے فراق میں آنسو بہاتا دکھائی پڑتا۔

برج کے تمام چھوٹے بڑے تاریخی واقعات انہیں زبانی یاد ہیں۔ میں نے چلتے چلتے پوچھا کہ ترقی کا معیار اب چھوٹے شہر سے بڑے شہر اور پھر اس سے بڑے ملک کا سفر ہے، آپ لاہور سے وزیر آباد کیوں آ گئے ؟

جواب ملا ’’جو یہاں سے چلا جاتا ہے وہ اس برج، اس کی تاریخ، ان تختے اور روشوں کے حصار سے بھی نکل جاتا ہے۔جانے والے کے لئے یہ سب ایک شہری زمیں کا ٹکڑا بن جاتا ہے ۔

جیسے گھر چھوڑ کر جانے والے بیٹے کے لئے باپ کی چھڑی اور ماں کا چشمہ بس ایک لاٹھی اور ایک عینک رہ جاتے ہیں اور وہ انہیں سنبھالنے ، اٹھانے اور دیر تک دیکھتے رہنے کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے، ایسے ہی مثمن برج سے جانے والا بھی پھر اسے مقدمے بازیوں اور کورٹ کچہری کی نظر سے دیکھتا ہے۔

مردہ خانے ایسے ریکارڈ روم کے تختوں پر اوپر تلے دھری دبیز فائلوں میں کسی بیزار جج ، بیروزگار وکیل اور بے مصرف منشی کے لئے مثمن برج ، سفید کاغذ، کالے قلم اور فارسی کے متروک الفاظ میں قطعہء اراضی سکنی ہائےغیر منقولہ بن جاتی ہے، اسے دھیان ہی نہیں پڑتا کہ جہانگیر نے کس چاؤ سے اپنے روزنامچے میں لکھا تھا۔۔۔

’’در موقعہء نو روز، من بدست خود دہ ایں باغ دلآویز گل سرخ کاشتم‘‘ (نوروز کے موقع پر، ہم نے اپنے ہاتھ سے یہ خوبصورت باغ لگایا جس میں گلاب کے پھول بھی لگائے)

’’مثمن برج بانٹنے والی جاگیر نہیں بلکہ سنبھالنے والا ورثہ ہے۔‘‘ میں ثمن برج سے نکلا تو شام آہستہ آہستہ گھاس کے تختوں پہ اتر رہی تھی۔۔۔


مصنف وفاقی ملازم ہیں۔

محمد حسن معراج
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (3) بند ہیں

Yasser Nomann Oct 02, 2012 11:07am
وزیرآباد کے بارے میں پڑھتے ہوئے میں توقع کر رہا تھا کہ زمیندار والے ظفر علی خان کا ذکر بھی ہو گا اور شاید انکے حوالے سے راجہ مہدی علی خان کے بارے میں بھی کوئی بات پتا چلے گی ِ آپ کی تحریر کا خاصہ ہے کہ تاریخ بیان کرتے ہوئے آپ علاقے سے متعلق اہم سماجی اور انمول ثقافتی حوالے بھی دے جاتے ہیں ِ یاسر نعمان
Koi-Kon Oct 03, 2012 10:05am
یاسر صاحب راجہ ظفر کی مسجد کا زکر پچھلی قسط میں ہو چکا ہے. راجہ مہدی کے بارے میں میری کم علمی کو درگزر فرمائیں.
khizar Oct 15, 2012 06:07am
salam all gents wzirabad is very beautifull and small city butt ilike city thanks

کارٹون

کارٹون : 18 دسمبر 2025
کارٹون : 17 دسمبر 2025