drama670
فائل فوٹو --.

حالیہ دنوں میں پیش کی جانے والی ایک ٹیلی فلم رعایا کی ہیروئن عجیب مخمصے کا شکار تھی۔ پاسداری کے لبادے میں ملبوس ایک قدرے ناکام سیلزمین کی بیوی ہونے کے ناطے وہ گھر کی دال روٹی مشکل سے چلا پا رہی تھی۔

معاشی دشواریوں سے بدتر اسکے شوہر کی پابندیاں تھیں جو کسی دینی تعلیم یا سلسلے سے بے بہرہ ہونے کے باوجود اپنے بیوی بچوں اور ہر محلے دار سے خود کو مولوی صاحب کہلوانا پسند کرتا تھا۔ معاشی دنیا کو دشوار جان کر اس نے اپنے دینی جذبات کو اپنے گھرانے کی محکومیت پر مرکوز کررکھا تھا۔ دس سالہ بچیوں کے سر پر ڈوپٹہ نہ ہونے پر آگ بگولہ ہونا یا بدتمیزی کے معمولی واقعات کی ٹوہ میں رہنا اسکا وطیرہ بن چکا تھا۔

جب اسے معلوم ہو تا ہے کہ بیوی گھر کی معمولی آمدنی میں سلائی کڑھائی کے ذریعے کچھ اضافہ کر رہی ہے تو وہ ایک معمولی شیطان سے خوفناک قد آور دیومیں تبدیل ہو جاتا ہے اور مذہب سے حاصل برتری کی بنیاد پر بیو ی بچوں پر ہاتھ اٹھانا شروع کردیتا ہے۔ چونکہ کہانی حقیقت پر مبنی نہیں تھی اسلئے اسکا اختتام اچھا ہی ہوتا ہے۔

وہ ان پڑھ عورت اردو سیکھنا شروع کرتی ہے اور خود کو مار کھانے کا حقدار قرار دینے کیلئے موجود مذہبی دلیلوں کا بذاتِ خود مطالعہ کرتی ہے۔ باخبر ہونے سے ملنے والی طاقت کی مدد سے وہ مولوی صاحب سے مقابلہ کرتی ہے اور اسی جیسی صورتحال سے دوچار سابقہ نافہم ناظر کو بغاوت کا ایک سبق دیتی ہے۔

رعایا کی کہانی ایک رواں معاشرے میں اجناس کی تیزی سے تبدیل ہوتی حقیقت کی اکیلی تحقیق نہیں۔ پاکستانی ٹیلیوژن کے مشہور ترین ڈرامہ سیریلز کی ایک بڑی تعداد میں کثرتِ ازدواج پر عمل پیرا کم از کم ایک جوڑے کا ذکر ضرور ہو تا ہے۔ یہاں بھی عکاسی میں معمولی سا فرق موجود ہے۔ مذہبی خطبوں میں مظلوم عورتوں کے مسئلے کے حل کے طور پرپیش کی گئی تجاویز یعنی ایک شادی شدہ شخص کی تین خالی درازوں میں سے ایک کی زینت بننے کی دلیل کو ٹیلیوژن ڈراموں کی دنیا میں پرزہ پرزہ کردیا جاتا ہے۔

جنگجو بیویوں کی چپقلشوں کی تفصیلات میں کثرتِ ازدواج کی جذباتی قیمت کی ایک عکاسی ہے اور وہ یہ حقیقت ہے کہ ایک طمانیت سے بھرپور شخص اور رتی برابر رشک کرنے والی پہلی بیوی بھی گزشتہ طور پر ایک جوڑی ہونے کے باجود بے تکلف بے وفائیوں کا سامنا نہیں کر سکتے۔

کثرتِ ازدواج اکلوتا گناہ نہیں ہے۔ نفیس حوالوں سے ہم جنس پرستوں کی بیویوں، دوسری عورتوں سے رغبت رکھنے والے اور نوکری کی اجازت نہ دینے والے مردوں کی بیویوں کے رنج وغم پیش کئے جاتے ہیں۔

اس سب کی تہہ میں جذبہ کے عدل، باہمی یکدلی سے اچانک دوچارحقیقت پسندی اور روایات پر مبنی رشتوں کی خوفناک حقیقت کے بارے میں کئی ان کہے سوالات موجود ہیں۔

کیا بھاری آمدنی رکھنے کے باوجود بھی عورتوں کو شوہروں کی ضرورت ہے؟ کیا بستر سے لگی بیوی ایک نئی بیوی لانے کا یا ایک ساس کا ظلم اس سے بدلہ لینے کا جواز ہے؟

باری باری پاکستانی معاشرے کی عمارت کی ہر اینٹ کو الگ کیا جاتا ہے۔ بار بار نشر ہونے کے باعث طلاق کے بعد شادی یا دونوں جا نب گزشتہ شریکِ حیات سے اولاد کی موجودگی کے حامل دو خاندانوں کے ملا پ جیسے ماضی میں ناگوار تصور کئے جانے والے موضوعات بھی کسی طرح قابلِ قبول بن جاتے ہیں۔

البتہ پاکستانی ٹیلیوژن ڈراموں کے ابھرتے ہوئے ان رنگوں پر توجہ دینے اور انہیں جنسی انقلاب کا مقام اور زبردست ثقافتی تبدیلی قرار دینے سے پہلے تحمل کی ضرورت ہے۔

یوں تو باہمی یکدلی کے ان کہے جذباتی پہلوؤں کا بھرپورمعائنہ کیا جاتا ہے مگر جس چیز کی کمی رہتی ہے یا محض سرسری طور پر ذکر ہوتا ہے وہ سیاسی قتل وغارت ہے جو تقریباً ہر پاکستانی کا محاصرہ کئے ہوئے ہے۔ خفیہ بیویوں کی برتر بیویوں سے ڈرامائی تکراروں میں الجھے ڈرامہ سیریلز کے یہ کردار ایک ایسے بلبلے کے باسی محسوس ہوتے ہیں جس پر سی این جی اور بجلی کی قلت، جلتی بسوں اورفرقہ ورانہ مار دھاڑ کا کوئی اثر نہیں۔

یہ دوسرے موضوع ایک سیاسی دنیا کے معاملات ہیں، پاکستانی ڈرامہ سیریلز کا نہیں بلکہ پاکستانی ٹیلیوژن ٹاک شو کا مرغن جز ہیں۔ اگر حامد میر یا کامران خان یا طلعت حسین شاذر ونادر ہی خفیہ بیویوں یا نوکری پیشہ عورت کے دکھ درد کا ذکر کرتے ہیں تو اسی طور ڈرامہ سیریلز بھی ان سیاسی پہلوؤں کو نظر انداز کردیتے ہیں جو نہ صرف نجی زندگی پر اثر انداز ہوسکتے ہیں بلکہ ہوتے بھی ہیں۔

یہ شاید اتفاقیہ بھول نہیں، دوسروں کے گھریلو تماشوں کی تازہ ترین صورتحال دیکھنے کی چاہ رکھنے والے ناظرین کے غول بھی ایک تشدد بھری زندگی سے راہِ فرار پانے کے خواہشمند ہیں۔ نیز، یہ دھیان دینا بھی مجبوری ہے کہ ایک اچھی کہانی کا اسکے مصنف کے اخلاقی نسخوں کے بوجھ تلے دب کر ایک لیکچر میں تبدیل ہوجانے کا خدشہ ممکن ہے۔

ساتھ ہی ساتھ، عوامی زندگی میں تشدد اورسامراجیت اورنجی دائرہ اثر میں دہشت گردی کے تانے بانوں کے معائنے میں ناکامی سے ثقافتی تبدیلی کے اس نازک راستہ کی صلاحیت کا مکمل معائنہ نہ ہوپانے کا بھی اندیشہ ہے۔

اول تو عوامی حلقے کا سیاسی روپ یا اسکا مردوں کی حکومت کے زیرِاثرہونا کوئی مسلمہ اصول نہیں جسکی پروڈیوسروں اور پاکستانی ڈرامہ سیریلز دیکھنے والوں کی جانب سے توثیق لازمی ہو۔

دوسری بات یہ کہ عوامی و نجی سطحوں کے بکھرنے کاعمل، عوامی دائرہ کار میں زبردستی برداشت کئے جانے والے تشدد کا تانہ بانہ اورجذباتی تشدد سے اسکا تعلق عدم توجہی کاشکار ہو کر نظر ہی نہیں آتے۔

تاہم، اسکی بالیدگی کی دہائی میں، پاکستانی ڈرامہ سیریلز کے ذریعے بیان کی جانے والی کہانیوں کی مختلف اقسام اور کثیر تعداد حوصلہ افزاء ہیں۔

ایک ایسے ملک میں جہا ں کی ایک بڑی آبادی چھوٹے قصبوں اور گاؤں سے نکل کر امڈتے ہوئے شہروں میں آبسی ہے اور جہاں انکی نئی زندگیاں محض صارفی معیشت کی مسرتوں اور وحشتوں سے ہی نہیں بھری بلکہ ایک ایسے تشدد سے بھی لبریز ہے جو اٹل بے حسی کو ضروری بنا دیتا ہے، ڈرامہ سیریلز یا سوپ آپیرا مردہ ہوئے جذبات کو زندگی بخشنے کا خوش آئند راستہ ہے۔

ہر رات کچھ گھنٹوں کیلئے، عورتوں کو جن کا سارا دن ممکنہ طور پر بچوں کی دیکھ بھال جیسی مشقت کرتے، دفتر میں قلم گھستے، یا ہسپتال میں مریضوں کی تیمارداری کرتے گزرا ہو اور تذکیر و تانیث کی مروجہ حد کو نظر انداز کردینے والے مردوں کو، عمومی طور پر دبے ہوئے یا خانہ بندی کے شکار جذبات کو دل پرحکم چلانے کی اجازت دینے کا موقع مل جاتا ہے۔


مصنف ایک اٹارنی ہیں اور پولیٹیکل فلسفہ اور آئینی قانون پڑھاتی ہیں

انگریزی سے اُردو ترجمہ:  شعیب فاروقی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں