Pakistan Peshawar Blasts
فائل فوٹو --.

گزشتہ دس بارہ سال کے دوران پاکستان نے، جیسا کہ اکثر و بیشتر اعداد و شمار کا حوالہ دیا جاتا ہے، "دہشت گردی کے خلاف جنگ" میں براہ راست یا با لواسطہ طور پر چالیس ہزار لوگوں کی قربانی دی- اس میں سیکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں-

اگرچہ اس کا خمیازہ ملک کی شہری آبادی کو بھی بھگتنا پڑا- زخمی ہونے والوں کی تعداد تو اس سے کہیں زیادہ ہے- اس کے علاوہ املاک اور کاروبار کو بھی کروڑوں ڈالر کا نقصان پہنچا- اور اس کے باوجود بھی ابھی جنگ جاری ہے.

جب کبھی بم کے دھماکے ہوتے ہیں فورا ہی ہلاک ہونے والوں اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں- ابتدائی اندازوں کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد حتمی تعداد کے مقابلے میں کہیں کم ہوتی ہے کیونکہ زخمی ہونے والے بھی بالاخر موت کا شکار ہو جاتے ہیں-

جب فاٹا میں دھماکے ہوتے ہیں، بلکہ خیبر پختون خواہ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں بھی دھماکے ہوتے ہیں تو ہمیں اکثر یہی سننے کا اتفاق ہوتا ہے کہ زخمیوں کو ضلع کے قریب ترین ہسپتالوں میں یا کبھی کبھار انہیں صوبائی دارالحکومتوں کے اسپتالوں میں منتقل کردیا گیا کیونکہ چھوٹے اسپتالوں میں اکثرو بیشتر علاج معالجے کی وہ سہولتیں میسر نہیں ہوتیں جو دھماکوں میں زخمی ہونے والوں کے علاج کے لئے ضروری ہیں-

لیکن اب تو اس جنگ کو شروع ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے- ہم ابھی تک اس  قابل کیوں نہیں ہوئے ہیں کہ ان گاؤں اور شہروں کے قریب حادثاتی مراکز (ٹروما سنٹرز) قائم کر سکیں جہاں اکثروبیشتر دھماکے اور دہشت گردی کی کارروائیاں ہوتی ہیں؟

ہمارے اسپتال اب تک کیوں بہتر سازو سامان سے لیس نہیں ہیں کہ ان کارروائیوں اور دھماکوں میں زخمی ہونے والوں کا مناسب علاج کیا جا سکے؟ ہمارے ملک کے میڈیکل کالجز نے ابھی تک اپنے نصاب میں وقت کی ضرورت کے مطابق تبدیلیاں کیوں نہیں کیں تاکہ نرسوں اور ڈاکٹروں کی بہتر تربیت ہو سکے اور وہ اس قابل ہوں کہ اس قسم کی صورت حال سے نمٹ سکیں؟

گو کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے نتیجے میں لوگوں کی زندگیاں یا ان کے اعضاء بچ جائینگے، جسے ہم آئے دن دیکھتے رہتے ہیں اور شائد دیکھتے رہینگے- لیکن یہ ضرور ہے کہ اموات کی تعداد میں کمی ہو سکتی ہے اور بہت سی زندگیاں بلکہ ان کے آعضاء بھی بچائے جاسکتے ہیں.

ملالہ کا آپریشن پہلے تو پاکستانی فوج کے ڈاکٹروں نے کیا اور بعد ازاں اسے راولپنڈی منتقل کر دیا گیا- لیکن یہ بھی ناکافی ثابت ہوا تو اسے انگلینڈ پہنچا دیا گیا کیونکہ اس بچی کو جس قسم کی نگہداشت کی ضرورت تھی وہ پاکستان میں میسر نہیں تھی- ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ دھماکوں میں زخمی ہونے والے یا گولی لگنے والے ہر شخص کا علاج ملالہ کی طرح نہیں ہو سکتا- لیکن اس بحث سے ہٹ کر بھی، ہماری خواہش کے باوجود کتنے لوگ انگلینڈ جانے کی استطاعت رکھتے ہیں-

اب جبکہ ہمیں آئے دن ہی جراحی کے کیسز کا سامنا کرنا پڑرہا ہے کیا یہ ضروری نہیں کہ پشاور، کوئٹہ اور کراچی میں ایسی سہولتیں موجود ہوں جہاں نازک قسم کے آپریشن کئے جا سکیں؟

نازک اور پیچیدہ علاج معالجہ کی سہولتیں تو دور کی بات ہے ان علاقوں کے اسپتالوں میں کام کرنے والے ہمارے بعض ڈاکٹر دوستوں کا کہنا ہے کہ وہاں بنیادی سہولتیں تک موجود نہیں ہیں- ایمبولینس گاڑیوں میں زندگی بچانے والے ضروری آلات موجود نہیں بلکہ یہ محض ایسی گاڑیاں ہیں جن میں نشستیں نہیں لگائی جاتیں تاکہ ان میں اسٹریچروں کو رکھ  کر زخمیوں کو اسپتال پہنچایا جاسکے.

پیرامیڈیکل اسٹاف کی بڑی تعداد ایسی ہے جنھیں ان حادثات کا شکار ہونے والے زخمیوں کی نگہداشت کرنے کی تربیت نہیں دی گئی ہے- اکثر اسپتالوں کے ایمرجنسی شعبوں میں تربیت یافتہ اسٹاف موجود نہیں اور نہ ہی انھیں ضروری ساز و سامان میسر ہے، بعض اسپتالوں میں تو ضروری ادویات بھی موجود نہیں بلکہ بعض بڑے بڑے اسپتال کے آپریشن تھیٹر بھی ضروری سازو سامان اور اسٹاف سے محرم ہیں.

حکومت کے افسران ہمیں نقصانات کے بارے میں بتاتے رہتے ہیں - لیکن سوال یہ ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے کم سے کم چند مسائل کو حل کرنے کے لئے کوئی پالیسی کیوں نہیں بنائی؟ کیا وجہ ہے کہ صحت کے شعبے میں مصارف کی ترجیحات کو تبدیل نہیں کیا گیا؟ ہم نے ایسے افراد کو تربیت کیوں نہیں دی جو مہارت کے ساتھ ہنگامی حادثات میں شکار ہونے والے افراد کا علاج معالجہ کر سکیں؟

اگرچہ دو ہزار آٹھ سے ہمارے ملک کے مرکز اور صوبوں میں جمہوری طور سے منتخب حکومتیں کام کر رہی ہیں، ہمیں ان کی پالیسیوں میں یا بجٹ کی ترجیحات میں کوئی نمایاں تبدیلی دکھائی نہیں دیتی- کیا ہم اس کا جواز یہ پیش کر سکتے ہیں کہ یہ ہمیں غیر منتخب حکومتوں سے ورثے میں ملی ہیں اور ہمارے موجودہ جمہوری نظام کی کمزوریوں کا نتیجہ ہیں جہاں منتخب ہونے والے نمائندے خود کو ان لوگوں کے سامنے جوابدہ محسوس نہیں کرتے جنہوں نے انھیں ووٹ دیا یا خود عوام بھی یہ محسوس نہیں کرتے کہ وہ اپنے ووٹ کی قوت سے اپنے نمائندوں کو جواب دہی کے لئے مجبور کر سکتے ہیں؟

شائد ہم اپنی حکومت کی وی آئی پی شخصیات کی حفاظت کے لئے کہیں زیادہ رقم صرف کرتے ہیں مثلا ان کے لئے حفاظتی سامان کی خریداری پر (بلٹ پروف گاڑیاں، پروٹوکول، پولیس کے دستے) نیز ان کے رواں اخراجات پر (سکیورٹی اسٹاف کی تنخواہیں وغیرہ) نہ کہ اسٹیٹ-آف-آرٹ  طرز کے حادثاتی مراکز کے قیام پر یا اسپتالوں کے ہنگامی علاج کے شعبوں کو بہتر سازو سامان سے لیس کرنے پر.

حتیٰ کہ ہمیں فنڈزفراہم کرنے والے اداروں (ڈونرز) نے بھی جن میں ان ممالک کےڈونرز بھی شامل ہیں جو پاکستان سے کہتے آئے ہیں کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنی جنگ سمجھیں ان مسائل پرتوجہ نہیں دی-

گرچہ ان علاقوں کے لئے معاشی امکانات فراہم کرنے کی باتیں کثرت سے کی جاتی ہیں جو اس جنگ سے متاثر ہوئے ہیں (گو کہ وہاں بھی کوئی خاص سرگرمیاں دکھائی نہیں دیتیں) بلکہ یہ بھی دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ذرایع تعلیم کے فقدان اور انتہا پسندی / دہشت گردی کے درمیان کیا تعلق ہے (یہاں بھی تعلیم کے لئے کوئی خاص کوششیں نظر نہیں آتیں) صحت کے شعبے کو بھی نظرانداز کر دیا گیا ہے.

چند ڈونر ممالک ایسے ہیں جو ان مسائل کو حل کرنے کا خصوصی تجربہ رکھتے ہیں- یہ ممالک پاکستانیوں کو تربیت دے سکتے تھے ضروری سازو سامان فراہم کرسکتے تھے اور مختلف قسم کے مصارف کو پورا کرنے میں حصّہ لے سکتے تھے.

گزشتہ دہائی پاکستان کے عوام کے لئے بے حد پریشان کن رہی ہے.

چالیس ہزار اموات کے جو اعدادو شمار پیش کئے جاتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ تقریبا دولاکھ سے زیادہ افراد اپنے خاندان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں- بہت سوں نے اپنے دوستوں اور عزیزو اقارب کو زخمی حالت میں دیکھا- اور یوں نہیں لگتا کہ معاملہ یہیں پر ختم ہو گیا ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم مزید اسی سمت میں بڑھ رہے ہیں.

جو کچھ ہم دیکھ چکے ہیں اور جو دیکھ رہے ہیں، یہ بات عجیب لگتی ہے کہ ہم نے اب بھی ایسا نظام قائم کرنے کے بارے میں نہ تو سونچا ہے اور نہ ہی کوشش کی ہے کہ خاص طور پر دھماکوں میں زخمی ہونے والوں اور گولیوں کا نشانہ بننے والوں کی زندگیوں کو بچانے کے لئے کچھ کریں اور عوام کو جینے کا ممکنہ موقع فراہم کریں.


 مصنف اوپن سوسائٹی پاکستان کے سینئر ایڈوائزر، لمس یونیورسٹی میں اکنامکس کے اسوسیٹ پروفیسر، اور آئیڈیاز لاہور کے     وزٹنگ فیلو ہیں.

 ترجمہ:         سیدہ صالحہ

تبصرے (0) بند ہیں